اعجاز زیڈ ایچ
یکم؍مارچ 1884صوفیانہ رنگ کی شاعری کے لیے معروف اور وسیعُ المشرب شاعر اصغؔر گونڈوی صاحب کا یومِ ولادت ہے۔
اصغر گونڈوی ، نام سیّد اصغر حسین، اصغؔر تخلص۔ یکم؍مارچ ۱۸۸۴ کو پیدا ہوئے۔ وطن ضلع گورکھپور (گونڈہ) تھا۔ دینی تعلیم کے بعد باقاعدہ تعلیم کا آغاز ہوا، مگر نامساعد حالات کی وجہ سے وہ مدرسے میں زیادہ تعلیم حاصل نہ کرسکے۔ البتہ خدا دادذہانت ، مطالعہ اور شوق کی بدولت عربی اور فارسی میں اچھی خاصی استعداد پیدا کرلی تھی۔
شروع میں کچھ غزلیں وجد بلگرامی، امیرؔ مینائی اور تسلیمؔ لکھنؤی کو دکھائیں۔ حصول معاش کے سلسلے میں کچھ عرصہ ادبی مرکز، لاہور سے وابستہ رہے۔
کچھ عرصہ انڈین پریس الہ آباد میں رسالہ ’’ہندوستانی ‘‘ کے مدیر رہے۔ چشموں کا کاروبار بھی کیا۔اصغرگونڈوی نہایت نفاست پسند ، خلیق اور وسیع المشرب شخص تھے۔ اصغرکا کلام کم ہے، مگر منتخب ہے ۔
ان پر فالج کا حملہ ہوا اور وہ ۳۰؍نومبر ۱۹۳۶ کو اللہ کو پیارے ہوگئے۔ انھیں الہ آباد میں حضرت شیخ محب اللہ کے مزار کے احاطے میں سپرد خاک کیا گیا۔ اصغر کے دوشعری مجموعے ’’نشاطِ روح‘‘ اور ’’سرودِ زندگی‘‘ شائع ہوگئے ہیں۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد اول)،محمد شمس الحق،صفحہ:294
معروف صوفی شاعر اصغؔر گونڈوی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔
اس جلوہ گاہِ حسن میں چھایا ہے ہر طرف
ایسا حجاب چشمِ تماشا کہیں جسے
—–
آلامِ روزگار کو آساں بنا دیا
جو غم ہوا اسے غم جاناں بنا دیا
—–
ایک ایسی بھی تجلی آج مے خانے میں ہے
لطف پینے میں نہیں ہے بلکہ کھو جانے میں ہے
—–
اصغرؔ غزل میں چاہئے وہ موجِ زندگی
جو حسن ہے بتوں میں جو مستی شراب میں
—–
بنا لیتا ہے موج خونِ دل سے اک چمن اپنا
وہ پابند قفس جو فطرتاً آزاد ہوتا ہے
—–
جینا بھی آ گیا مجھے مرنا بھی آ گیا
پہچاننے لگا ہوں تمہاری نظر کو میں
—–
چلا جاتا ہوں ہنستا کھیلتا موجِ حوادث سے
اگر آسانیاں ہوں زندگی دشوار ہو جائے
—–
حل کر لیا مجاز حقیقت کے راز کو
پائی ہے میں نے خواب کی تعبیر خواب میں