ذیشان صحافی
بھارت میں مالی مجبوریوں کی وجہ سے بہت سے بچے تعلیم سے محروم ہو جاتے ہیں یا تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی اسکول چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق، ہندوستان میں ثانوی سطح پر ڈراپ آؤٹ کی شرح 17 فیصد سے زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک میں تقریباً 30 فیصد طلبا ایسے ہیں جو سیکنڈری سے سینئر سیکنڈری تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔ ایسے میں اویس عنبر نے ان طلباکو تعلیم دینے کا بیڑہ اٹھایا ہے۔
اویس عنبر بہار میں واقع روزمین ایجوکیشنل اینڈ چیریٹیبل ٹرسٹ کے بانی ہیں۔ جو ملک میں مالی مجبوریوں اور دیگر وجوہات کی وجہ سے بیچ میں چھوڑنے والے طلبا کا بہت بڑا مددگار ہے۔ ہزاروں بچوں کی تعلیم کی ذمہ داری اٹھا کر انہوں نے نہ صرف انہیں تعلیم یافتہ بنایا بلکہ خود انحصاری بھی کی۔ آج یہ تمام طلبہ اویس کو آشیرواد دے رہے ہیں۔
روزمین کی بنیاد 2012 میں اویس نے رکھی تھی، جس نے ہندوستان کے سابق صدر اور میزائل مین ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام کو آئیڈیل کیا تھا۔ پچھلی دہائی کے دوران انہوں نے 30,000 سے زائد طلبا کو نہ صرف اعلیٰ اور فنی تعلیم حاصل کرنے بلکہ روزگار کے حصول میں بھی مدد کی ہے۔ آج ان کی تنظیم اس مقصد کے ساتھ کام کر رہی ہے کہ ملک کا نظام تعلیم اتنا سستا ہو جائے کہ کسی کو پیسے کی کمی کی وجہ سے اپنی تعلیم درمیان میں نہ چھوڑنی پڑے۔ اس کے لیے وہ مسلسل کوشش کر رہا ہے۔
بہار کے جہان آباد ضلع میں ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے، اویس کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنی زندگی میں سخت جدوجہد کرنی پڑی۔وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اور نوجوان ایسی مشکلات کا سامنا کرے۔ اس کے لیے ان کی تنظیم ملک بھر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں کے درمیان میں تعلیم چھوڑنے والے طلبہ کو داخلہ دیتی ہے۔ جہاں انہیں تعلیم سے متعلق کوئی خرچ برداشت نہیں کرنا پڑتا۔ ان کا ادارہ خود طلبہ کی فیس ادا کرتا ہے اور مستقبل میں کبھی واپس نہیں لیا جاتا۔ اس بارے میں اویس کا کہنا ہے کہ ٹیلنٹ امیر اور غریب کے لیے کوئی سحر نہیں ہے۔ تمام طلبہ کو عزت ملنی چاہیے۔
سر سید احمد خان کا حوالہ دیتے ہوئے وہ مزید کہتے ہیں کہ سرسید نے ملک کے نوجوانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی سے جوڑنے کا خواب دیکھا تھا۔ لیکن اس کے اپنے لوگ اس کی راہ میں رکاوٹ بن گئے۔ یہ طبقہ اس وقت بھی سویا ہوا تھا اور آج بھی سو رہا ہے۔ لیکن اب میں ایک نہیں بلکہ سینکڑوں سرسید پیدا کرنے کے مشن پر ہوں۔
مسلم معاشرے کی تعلیم میں پسماندگی کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ مسلم معاشرے کا دانشور تکبر میں ڈوبا ہوا ہے۔ انا کے سامنے ان لوگوں کو نہ معاشرے کی ترقی نظر آتی ہے اور نہ ہی ملک کی ترقی۔ یہ لوگ ایک ساتھ نہیں جانا چاہتے۔ وہ اپنے نام اور شہرت کے لیے ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہے ہیں، وہ صرف حکومت پر تنقید کر سکتے ہیں۔
ان کا ماننا ہے کہ اگر مسلم معاشرہ ترقی کرے گا تو ملک بھی ترقی کرے گا۔ اس کے لیے مسلم نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار کے میدان میں آگے لانا ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ناکام اور ناخواندہ لوگ اندھیروں میں جی رہے ہیں۔ ان لوگوں کو روشنی دکھانے کی ضرورت ہے۔ ملک اور سماج کے مفاد میں وہ مسلم نوجوانوں کو تعلیم سے جوڑ رہے ہیں۔
اویس عنبر نہ صرف تعلیمی میدان میں بلکہ سماجی برائیوں کے خلاف بھی کام کر رہے ہیں۔ اس نے جہیز کے خلاف مہم بھی شروع کر رکھی ہے۔ وہ ادارے سے وابستہ تمام طلبہ کو شادی میں جہیز نہ لینے کا حلف دلاتے ہیں۔ ساتھ ہی وہ یہ قسم بھی کھاتے ہیں کہ اگر وہ مستقبل میں کامیاب ہوئے تو انہیں ایک غریب بچے کو پڑھانا پڑے گا۔
اویس عنبر کو کئی فورمز میں اس سماجی انقلاب کے لیے اعزاز سے نوازا گیا۔ انہیں 2015 میں ہندوستان کے سابق صدر اے پی جے عبدالکلام اور 2019 میں نیپال کی صدر ودھادیوی بھنڈاری نے اعزاز سے نوازا ہے۔ اویس عنبر اب نیپال، بھوٹان اور بنگلہ دیش میں بھی اس مہم کو بڑھا رہے ہیں۔
(مصنف ایک آزاد اور نوجوان صحافی ہیں، وہ حالات حاضرہ پر لکھتے ہیں)