Urdu News

اظہر عنایتی: دبستان رام پور کا نمائندہ ممتاز و منفردشاعر

اظہر عنایتی کا پورا نام اظہر علی خاں اور تخلص اظہر ہے۔

 اظہر عنایتی: دبستان رام پور کا نمائندہ ممتاز و منفردشاعر 

 اظہر عنایتی کا شمار عہدِ جدید کے معتبر اور مستند شعراء میں ہوتا ہے۔ دبستانِ رام پور کے نمائندہ شعراء کی مختصر ترین فہرست بنائیں گے تب بھی اس میں اظہر عنایتی کا نام ضرور شامل ہوگا۔ اظہر عنایتی اپنے لہجے سے پہچانے جاتے ہیں۔ دبستانِ دہلی، دبستانِ لکھنؤ اور دبستانِ عظیم آباد کی طرح دبستانِ رام پور بھی اپنی ایک خاص ادبی اور لسانی روایت کا امین اور پاسدار ہے۔ رام پور کی شاعری زبان کی شاعری کے حوالے سے بھی اپنی پہچان رکھتی ہے۔ اسی رامپور کے ایک اہم شاعر اظہر عنایتی کہتے ہیں :
یہ  رنگ  زار  ہے  اپنا  پروں  پہ  تتلی  کے 
دھنک  ہو خود میں  تو پھولوں سے  استفادہ کیا   
اظہر عنایتی کا پورا نام اظہر علی خاں اور تخلص اظہر ہے۔ 15 اپریل 1946؁ء کو پیدا ہونے والے اظہر علی خان نے اپنے شعری سفر کا آغاز محض بارہ سال کی عمر میں 1958 ؁ ء میں کیا۔ استاد شاعر محشر عنایتی کے شاگرد اظہر عنایتی نے مختلف اصناف میں طبع آزمائی کی لیکن انکے اصل جوہر غزل میں کھلتے ہیں۔ ’خود کلامی‘ اور ’اپنی تصویر‘ جیسے مجموعۂ غزلیات نے خاصی شہرت حاصل کی۔ ان کے ان شعری مجموعوں کو علمی و ادبی حلقوں میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا گیا اور عوام نے بھی پذیرائی کی۔ ایسے شعراء کی تعداد یقینا بہت کم ہے جو عوامی مقبولیت کے ساتھ ساتھ ادبی وقار بھی رکھتے ہوں۔ اظہر عنایتی ہندوستان بھر میں اور درجنوں دیگر ممالک میں منعقد ہونے والے مشاعروں میں بیحد پسند کئے جاتے ہیں۔ کلام کی ندرت اور پڑھنے کا خاص انداز انھیں ہر خاص و عام میں مقبول بناتا ہے۔ مشاعروں کے کامیاب ترین شعراء میں اظہر عنایتی کا شمار ہوتا ہے۔ دوسری طرف دانش گاہوں سے تعلق رکھنے والے بگڑیل نقاد بھی ان کی شاعری کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ 
اظہر عنایتی کے فکر و فن پر جو کچھ بھی لکھا گیا تھا وہ ادھر ادھر بکھرا پڑا تھا۔ اسے پروفیسر شہزاد انجم نے بڑی محنت اور لگن سے یکجا کیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر شہزاد انجم کا شمار نئی نسل کے معتبر نقادوں میں ہوتا ہے۔ پروفیسر شہزاد انجم کا تعلق اس عظیم دھرتی ’گیا‘سے ہے جہاں بھگوان بدھ کو گیان پراپت ہوا تھا۔ مگدھ یونیورسٹی بودھ گیا، بہار سے ایم اے کرنے کے بعد شہزاد انجم نے دہلی یونیورسٹی سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ، نئی دہلی کے شعبۂ اردو میں پروفیسر شہزاد انجم ایک زمانے تک رام پور میں سکونت پذیر تھے۔ رامپور میں تدریسی خدمات انجام دیتے ہوئے وہ مسلسل تحقیقی اور تنقیدی کاموں میں مصروف رہے۔ رام پور اور اہلِ رام پور سے وہ بہت اچھی طرح واقف ہیں۔ عام طور پر اہلِ ادب یہ سمجھتے ہیں کہ مرتب کا کام بہت آسان ہوتا ہے۔ جبکہ معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ مرتب میں ایک دیدہ ور نقاد کی فہم اور ایک محقق کی نظر ہونی چاہئے تبھی وہ اپنے کام سے انصاف کر سکتا ہے۔ وہ غالب کا طرفدار بھی ہو تو قباہت نہیں۔ہاں سخن فہم ضرور ہونا چاہئے۔ اور کہنے کی ضرورت نہیں کہ پروفیسر شہزاد انجم میں یہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ ’آزادی کے بعد اردو شاعری‘ اور’دیدہ ور نقاد: گوپی چند نارنگ‘  جیسی کتابیں مرتب کر کے اہلِ علم و ادب سے خراجِ تحسین حاصل کر چکے ہیں۔ کتاب”اظہر عنایتی: ایک سخن ور“ بھی مرتب کے حسنِ ترتیب کی عکاس ہے۔ 
کتاب میں کل سات ابواب ہیں۔ بابِ اوّل ’عظیم لوگ، یادگار تحریریں‘ کے تحت تیرہ مضامین شاملِ کتاب ہیں۔ اس میں احمد ندیم قاسمی، مالک رام، احسان دانش، ابواللیث صدیقی، قمر رئیس، شمیم حنفی، نثار احمد فاروقی اور گوپی چند نارنگ جیسی عظیم شخصیات نے اظہر عنایتی کے فکر و فن اور شعری امتیازات پر اظہارِ خیال کیا ہے۔ بابِ دوم ’مستند اہلِ قلم، معتبر رائیں‘ میں پروفیسر علی احمد فاطمی، پروفیسر شہزاد انجم اور ڈاکٹر وقار الحسن صدیقی جیسے مستند اہلِ قلم نے اظہر عنایتی کی شاعری کا تفصیلی جائزہ پیش کیا ہے۔ مرتب نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ تکرار نہ ہو، اور اظہر عنایتی کی شاعری کے مختلف پہلو سامنے آجائیں۔ 
بابِ سوم ’اظہر عنایتی اپنوں کی نظر میں‘ میں جو مضامین شامل کئے گئے ہیں ان سے اظہر عنایتی کی شخصیت کے بہت سے پہلو سامنے آتے ہیں۔ ان کی نصف بہتر محترمہ صوفیہ اظہر نے بہت خوبصورت اور دلچسپ انداز میں اظہر عنایتی کی شخصیت کے مختلف پہلووں سے روشناس کرایا ہے۔ مشہور سیاست داں اور اتر پردیش کے کابینہ وزیر محمد اعظم خاں بھی اظہر عنایتی کی شاعری کے دلدادہ ہیں۔ محمد اعظم خاں کا ایک مختصر مضمون بھی اس کتاب میں شامل ہے۔ بابِ چہارم ’مشاہر کے تاثرات‘ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے مشاہر اردو زبان و ادب نے اظہر عنایتی کی شاعری اور انکے فکر و فن پر تاثرات ظاہر کئے ہیں۔ فہرست دیکھ کر اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اظہر عنایتی کی شاعری کا جادو کیسے کیسے با کمالوں پہ چلا ہے۔ فیض احمد فیض، عنوان چشتی، حکم چندر نیر، مخمور سعیدی، محمود الٰہی، اکبر علی خاں عرشی زادہ، شارب ردولوی اور مظفر حنفی جیسے اکابرین نے بہت پہلے اظہر عنایتی کی شاعری کی انفرادیت کو پہچان لیا تھا۔ اور اسی لئے اپنے تاثرات کا اظہار کیا۔ بابِ پنجم ’کچھ احباب کی آرا‘ ہے۔ بابِ ششم میں اظہر عنایتی کے چار اہم انٹرویوز ہیں۔ بہ زبانِ شاعر بھی جو باتیں سامنے آتی ہیں ان سے شاعر کی شخصیت اور شاعری کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ آخری باب میں خود اظہر عنایتی کا ایک بیحد مختصر مضمون ’میں اور میری آواز‘ ہے۔ محترمہ صوفیہ اظہر نے سوانحی اشارے ترتیب دیکر مستقبل میں تحقیقی کام کرنے والوں کے لئے آسانی پیدا کر دی ہے۔ اس باب میں فاضل مرتب نے بیحد عمدہ انتخابِ کلام پیش کیا ہے۔ کلام کا انتخاب اس خوبی سے کیا گیا ہے کہ اظہر عنایتی کی شاعری کے تمام رنگ ابھر کر سامنے آجاتے ہیں۔ 
تنگ ہوتا ہے تو ہو جائے مراسم کا حصار 
شاخِ گل ہم بھی نہیں ہیں کہ لچکتے جائیں 
اور انکے یہ اشعار بھی اسی انتخاب میں ہیں، 
بوڑھے سیاح بتا تونے تو  دیکھی  ہوگی 
ایسی دنیا کہ جہاں پیار  کیا جاتا  ہے
خود کشی کے لئے تھوڑا سا  یہ کافی ہے مگر 
زندہ رہنے کو بہت  زہر  پیا  جاتا  ہے
یہ مصاحب ہیں انھیں اس کا ہنر آتا ہے
شہ کی باتوں میں رفو کیسے کیا  جاتا  ہے۔
یقینا اظہر عنایتی کے چاہنے والوں کے لئے کتاب ”اظہر عنایتی: ایک سخن ور“  ایک انمول تحفہ ہے۔ اس خوبصورت پیش کش کے لئے ہمیں پروفیسر شہزاد انجم کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ کبھی اظہر عنایتی نے کہا تھا کہ 
مری  آواز  کو  محفوظ  کر لو 
کہ میرے بعد سناّٹا  بہت ہے  
اس آواز کو محفوظ کرنے کے بعد پروفیسر شہزاد انجم قارئین سے کہہ سکتے ہیں کہ 
ہم نے روشن چراغ  کر تو  دیا 
اب ہواؤں کی ذمہ داری ہے۔
اظہر عنایتی کا آج جنم دن ہے۔ 15اپریل 1946کو وہ اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ گزشتہ سال وہ بیمار تھے، شاعر حضرات یوں بھی دل کی بیماری پال کے رکھتے ہیں۔ دل کے عارضے میں داخل اسپتال ہوئے۔ دنیا بھر میں ان کے چاہنے والوں نے صحت یابی کی دعائیں کیں۔ اب ماشا ء اللہ بہتر ہیں۔ خدا انھیں صحت و عافیت کے ساتھ طویل عمر عطا فرمائے۔ اظہر عنایتی کو قریب سے جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ تعلیم یافتہ، ہنس مکھ، با ضمیر، اصول پسند اور خوبصورت انسان ہیں۔ پکے رام پوری پٹھان ہیں۔ آن بان اور شان والے بھی ہیں۔ اپنی شاندار وراثت پہ نازاں مگر منکسر المزاج بھی ہیں۔ شاہوں کا قصیدہ لکھنے سے انکار کرنے والے اظہر عنایتی اپنے چھوٹوں کو شفقتوں سے نوازتے رہتے ہیں۔ ہم انھیں ان کے جنم دن پر مبارکباد پیش کرتے ہیں۔ 

                                            (تحریر: ڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو، نئی دہلی)    

Recommended