بنارس کے ذکر کے بغیر غالب کا کلکتہ کا سفر مکمل نہیں ہوتا
مرزا غالب نے کئی سفر کئے۔ سب سے مشکل سفر کلکتہ کا تھا۔ دوران سفر لکھنؤ، الہ آباد اور بنارس میں رکے۔ بنارس نے ان کو بہت متاثر کیا۔ مثنوی چراغ دیر اسی کی یاد گار ہے۔
دہلی میں مستقل سکونت کے بعد مرزا غالب ؔدہلی سے باہر کلکتہ،رام پوراور میرٹھ جیسے شہروں کے سفرکیے۔ان میں سب سے لمبا سفر کلکتہ کا تھا۔اس شہر کا سفر انہوں نے پنشن کی بحالی کی غرض سے کیا تھا۔اس سلسلے میں وہ تقریباً تین سال دہلی سے باہر رہے۔اس سفر کے دوران انہوں نے لکھنو،الہ آباد،بنارس،پٹنہ اور بعض دوسرے شہروں میں بھی قیام کیا۔در اصل غالبؔ کو فیروز پور جھرکہ سے جو پنشن ملتی تھی اسے احمد بخش خان کے بیٹے نواب شمس الدین احمد خان نے بند کر دیا۔ غالبؔ معاشی تنگی سے پریشان تھے اس لیے انہیں قانونی چارہ جوئی کے لیے کلکتہ کا سفر کرنا پڑا۔اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کا دارالحکومت کلکتہ شہر ہی تھا۔گورنر اسی شہر میں رہتا تھا۔اس کی انتظامیہ کونسل کے سامنے غالب ؔ نے اپنا مقدمہ پیش کیا۔منت و سماجت کی،سفارشیں کرائیں،وظیفے کی بحالی کے لیے بڑی مشکلیں جھیلیں پھر بھی وہ کلکتہ سے خالی ہاتھ ہی لوٹے۔مرزا غالب ؔکلکتہ اپنی پنشن سے متعلق مقدمے کے سلسلے میں گیے تھے۔جسے وہ بحال کرانے میں ناکام رہے لیکن اس سفر سے مرزا غالب ؔ کو بہت فائدے ہوئے۔شہر کلکتہ غالب ؔ کو خوب پسند آیا۔وہ اپنے خطوط اور نظموں میں یہاں کی آب وہوا اور آموں کی خوب تعریف کی ہیں۔وہ وہاں کے ادبی مشاعروں میں بھی شریک ہوتے رہے۔اس شہر میں ان کے کئی اچھے دوست بھی ہو گیے تھے جن سے تا حیات دوستانہ رہا۔کلکتہ میں غالب ؔ کو ایک علمی معرکہ کا بھی سامنا کرنا پڑا جس کا ذکر انہوں ”باد مخالف“نامی مثنوی میں کیا ہے۔اسی سفر کے دوران مرزا غالبؔ نے لکھنو میں چند ماہ قیام کیا۔لکھنو کے اہل علم نے ان کی خوب آو بھگت کی،لیکن بادشاہ غازی الدین حیدر اور اس کے نائب آغا میر کے دربار میں رسائی نہ ہوسکی۔لکھنو سے کانپور اور الہ آباد کے راستے بنارس پہنچے۔شہربنارس مرزا غالبؔ کو بہت پسند آیا اور اس شہر کی تعریف میں فارسی زبان میں ایک مثنوی بعنوان”چراغ دیر“ تحریر کیا۔مرزا غالب رام پور دو بار گیے۔پہلی مرتبہ 1860ء میں رام پور کا سفر کیا۔نواب یوسف خان غالب ؔ کے علمی پرستا راور محسن تھے۔غالب ؔکی تنگ دستی کے زمانے میں انہوں نے بطور وظیفہ سو روپیے ماہ وار مقرر کر دیا۔نواب یوسف علی خاں مرزا غالبؔکے شاگرد بھی تھے۔رام پور کے اہل علم میں غالب ؔکی بڑی قدر و منزلت تھی۔ان کی صحبت سے اہل رام پور مستفیض ہویئے۔رام پور کا دوسرا سفر غالب نے 1865ء میں کیا تھا جب نواب یوسف خان کا انتقال ہوا تھا۔ان کے جاں نشیں نواب کلب علی خان نے بھی غالب کو ؔ خوب عزت دی اور ان کی خاطر داری کی۔انہوں نے بھی غالبؔ کا وظیفہ جاری رکھا۔1859ء میں غالبؔ نے میرٹھ کا سفر کیا۔اس وقت میرٹھ شہر میں ہی غالب ؔکے دوست نواب مصطفی خان شیفتہؔرہتے تھے۔ ان سے غالبؔ نے ملاقات کی۔شیفتہؔ اس زمانے کے بڑے بلند مرتبہ لوگوں میں تھے۔ان کے نام غالب ؔکے خطوط سے پتہ چلتا ہے کہ شیفتہ ؔ سے ان کا والہانہ لگاو تھا۔