Urdu News

بائیڈن پوتن: بات چیت کا آغاز

امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر ولادیمیر پوتن

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک

جنیوا میں امریکی صدر جو بائیڈن اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے مابین ہونے والی ملاقات نہ صرف ان دونوں سپر پاوروں کے لیے اہم ہے ، بلکہ عالمی سیاست کے نقطہ نظر سے بھی یہ ایک اہم واقعہ ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور پوتن کے مابین پہلے سے جاری گٹھ جوڑ کی کہانیاں کافی مشہور ہوچکی تھیں اور جب انہوں نے 2018 میں ہیلسنکی میں ملاقات کی تو ان کی ملاقات کا ماحول بہت گرم تھا ، لیکن اس بار بائیڈن اور پوتن دونوں ملنے سے پہلے بہت محتاط اور تذبذب کا شکارتھے۔ اس کے باوجود ، یہ اعتراف کرنا پڑے گا کہ دونوں رہنماوں کے درمیان ملاقات بہت ہی مثبت رہی۔

پہلا واقعہ یہ ہوا کہ دونوں ممالک نے اپنے سفیروں کو ایک دوسرے کے دارالحکومت واپس بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ بائیڈن کے ذریعہ پوتن کے لئے 'قاتل' کا لفظ استعمال کرنے کے بعد دونوں ممالک نے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیاتھا۔ اس ملاقات میں بھی ، بائیڈن نے روسی حزب اختلاف کے رہنما الیکسی ناوالنی کے بارے میں سخت موقف اختیار کیا اور صحافیوں کو بتایا کہ اگر جیل میں قید ناوالنی کو مارا گیا تو اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔

 یہ میری رائے میں ایک انتہائی رد عمل ہے۔ آپ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں ، لیکن ان میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کرنا کس حد تک ٹھیک ہے؟ دونوں رہنماوں نے متعدد جوہری اسلحہ پر قابو پانے کے معاہدوں اور سائبر حملوں کی روک تھام پر بھی غور کرنے کا عزم کیاہے۔ پوتن نے یوکرین کی مشرقی سرحد پر روسی افواج کو اکٹھا کرنے اور کچھ روسیوں کو سائبر حملوں کا ذمہ دار قرار دینے کے امریکی رویے کو بھی مسترد کردیا ، لیکن ان اختلافات کے باوجود ، دونوں رہنماوں کے مابین چار گھنٹے کی گفتگو میں ، کسی بھی معاملہ میں کوئی بھی کہاسنی نہیں ہوئی ۔ بعد میں صحافیوں سے بات چیت کے مطابق دونوں عالمی طاقتوں کے مابین بامقصد بات چیت کا آغاز ہوچکا ہے۔

دونوں رہنماوں کو اس ملاقات سے زیادہ کی توقع نہیں تھی لیکن اب اس ملاقات نے دونوں کے مابین بات چیت کے دروازے کھول دیئے ہیں۔ بائیڈن کا بیان قابل ذکر ہے کہ وہ روس کے خلاف نہیں ہیں ، لیکن وہ امریکی عوام کے مفادات کے حق میں ہیں۔ بائیڈن پوتن کو 'قاتل' کہنے کے باوجود ان سے ملنے پر راضی ہوگئے ، اس کی اصل وجہ میرے خیال میں چین ہے۔

 امریکہ چین سے سخت ناراض ہے۔ وہ کس طرح دو سپر پاوروں کو اپنے خلاف متحد ہونے کی اجازت دے گا؟ فی الحال اگر سرد جنگ کو روکناہے تو ، روس اور امریکہ کے تعلقات کا ہموار رہنا بہت ضروری ہے۔ اس میں کوئی تعجب نہیں کہ بائیڈن پوتن کی بات چیت ، بائیڈن اور شی چن فنگ کے پرانے واقف کار ہونے کے باوجود ، بین الاقوامی سیاست میں ایک نئی راہ پیدا کر سکتی ہے۔ یہ ہندوستان کے لئے بھی فائدہ مند ثابت ہوگا۔

(مضمون نگار ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)

Recommended