لڑکا، لڑکی، نوکری، رشوت اور لالچ
تحریر: مولانا محمد شاہد علی مصباحی (باکی، جالون)
جب بات جہیز کی ہو تو ہمارا موقف یہ ہے:
’’جہیز مانگنا بھی غلط ہے اور پچاس ہزار کی نوکری والا لڑکا تلاش کرنا بھی غلط ہے۔‘‘
اگر سب نوکری والا لڑکا ہی تلاش کریں گے تو باقی لڑکے کنوارے رہیں گے کیا؟
ہم جان بوجھ کر دولت مند لڑکا تلاش کرتے ہیں اور خود ہی پوچھتے ہیں: آپ کی مانگ کیا ہے؟
اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب تک لڑکے کی نوکری نہیں لگی ہے تب تک جلد کوئی رشتہ نہیں آتا، ماں باپ کسی سے کہتے ہیں تو لڑکی والے تیار نہیں ہوتے، لڑکی والوں کا پہلا سوال ہوتا ہے کہ لڑکا کماتا کتنا ہے؟ ہماری لڑکی کو کیا کھلائے گا؟ کیا پہنائے گا؟
مگر جیسے ہی نوکری لگ جاتی ہے تو رشتے والوں کی آمد سے چوکھٹ گھس جاتی ہے۔
اب لڑکے والے کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے اور ڈیمانڈ کیوں نہ بڑھے جب کہ ڈیمانڈ بڑھنے کی ایک نہیں، دو وجوہات ہیں۔
پہلی وجہ: اسی لڑکے کو سیکڑوں لوگ رجیکٹ کر چکے ہوتے ہیں، تو اب لڑکے والے اپنا غصہ نکالنا چاہتے ہیں۔
دوسری وجہ: رشوت ہے کہ نوکری لگنے میں جو بڑی پیٹی رشوت کی دی ہے، اس کی بھرپائی بھی تو کرنی ہے کہیں نہ کہیں سے!تو جو سامنے ہوگا وہی نظر آئے گا۔ اب لڑکی والے ہی چوکھٹ گھس رہے ہوتے ہیں، تو اس قیمت کا ٹھیکرا انہیں پر پھوٹتا ہے۔بارہا دیکھا گیا ہے کہ جیسے ہی نوکری لگنے کی خبر ملتی ہے وہی لوگ پہلی فرصت میں رشتہ لگانے پہنچ جاتے ہیں جو کئی بار اسی لڑکے کو پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے رجیکٹ کرچکے ہوتے ہیں۔
تو اب جب کہ اس کے پاس پیسہ ہے تو کیوں نہ آپ سے پوچھے کہ آپ کیا دے سکتے ہیں؟
اس کو رجیکٹ اسی لیے کیا گیا تھا کہ اس کے پاس پیسہ نہیں تھا، سوچتے تھے لڑکی کو کیا کھلائے گا؟ کیا پہنائے گا؟
تو اب جب کہ وہ نوکری والا ہے تو وہ پوچھتا ہے کہ تم کتنا دوگے؟
اور آپ بھی کوئی نیک بن کر تو گئے نہیں ہیں اس کے دروازے! آپ بھی لالچ کا پٹارہ لے کرگئے ہیں اور نیت کرکے گئے ہیں گاڑی یا کچھ کیش کے بدلے لڑکا خرید کر ہی فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ لوٹیں گے۔
تو اب جب وہ مزید مانگتا ہے تو کیس کس بات کا؟ الزام کس بات کا؟ یہ تو آپ ہی نے سکھایا تھا کہ رشتہ ہمارے یہاں کردو ، بولو کون سی گاڑی چاہیے؟ کتنا کیش چاہیے؟
تو آج اسے دوسری گاڑی پسند آگئی ہے اور وہ چاہتا ہے کہ جس طرح آپ نے اسے قیمت دےکر خریدا تھا اب پھر سے لڑکی کی خاطر خریدیں گے۔
تو اب روتے کیوں ہو؟
یہ راستہ اسے آپ ہی نے بتایا ہے!
اب قصور وار صرف لڑکا کیوں؟
میرا اپنا نظریہ یہاں کچھ اور بھی ہے، اور وہ یہ کہ
قصوروار صرف یہی دو فریق نہیں بلکہ تین ہیں۔ اور وہ تیسرا فریق ہے ’’رشوت‘‘
جب قصور وار تین ہیں تو صرف لڑکے پر ساری بلا کیوں؟
اسی پر ناکامی کا ٹھیکرا کیوں پھوٹے؟
اسی کو جیل کی ہوا کیوں کھانی پڑے؟
رشتہ بگڑنے کے بعد حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا کا جہیز یاد کرنا:
آپ رشتہ کرتے وقت اسلام کو فالو نہیں کرتے اور جب رشتہ بگڑ جاتا ہے یا کچھ اونچ نیچ ہوجاتی ہے تو حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالی عنہا کا جہیز یاد آ جاتا ہے۔
اگر آپ کو جہیز، حضرت سیدہ فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یاد آتا ہے، تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی غربت کیوں بھول جاتے ہیں رشتہ کرتے وقت؟
اسلام سے سیکھیں رشتہ کیسے کیا جاتا ہے:
فرمان خدا وندی ملاحظہ کریں:
وَ اَنۡکِحُوا الۡاَیَامٰی مِنۡکُمۡ وَ الصّٰلِحِیۡنَ مِنۡ عِبَادِکُمۡ وَ اِمَآئِکُمۡ ؕ اِنۡ یَّکُوۡنُوۡا فُقَرَآءَ یُغۡنِہِمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿ سورہ نور، آیت: ۳۲﴾
ترجمہ: اور نکاح کر دو اپنوں میں ان کا جو بے نکاح ہوں اور اپنے لائق بندوں اور کنیزوں کا اگر وہ فقیر ہوں تو اللہ انھیں غنی کر دے گا اپنے فضل کے سبب اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔
اللہ عزوجل تو فرما رہا ہے اگر غریب ہوں، نادار ہوں تب بھی نکاح کردو اللہ انہیں غنی فرمادےگا، بے نیاز کردےگا۔
مگر نا بابا نا ! ہم تو نوکری والا ہی تلاش کریں گے!
حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں:
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ: تُنْكَحُ الْمَرْأَةُ لِأَرْبَعٍ : لِمَالِهَا ، وَلِحَسَبِهَا ، وَجَمَالِهَا ، وَلِدِينِهَا ، فَاظْفَرْ بِذَاتِ الدِّينِ تَرِبَتْ يَدَاكَ. ( بخاری شریف، حدیث نمبر: 5090)
ترجمہ: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
(1) اس کے مال کی وجہ سے
(2) اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے
(3) اس کی خوب صورتی کی وجہ سے
(4) اس کے دین کی وجہ سے
اور تو دین دار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی۔ ( یعنی اخیر میں تجھ کو ندامت ہو گی۔)
یا رکھیں ! یہ حکم طرفین کے لیے یکساں ہے۔ لڑکی میں بھی دین داری دیکھیں اور لڑکے میں بھی۔
غور کریں! مذہب اسلام تو کہتا ہے کہ شادی نہ مال دیکھ کر کرو، نہ خوب صورتی دیکھ کر، نہ دنیاوی جاہ و جلال کے حصول کی خاطر بلکہ شادی دین دیکھ کر کرو!
یعنی اگر لڑکا یا لڑکی مالدار ہے تو شادی صرف مالداری کی بنیاد پر نہ کرو!
اگر خوب صورت ہیں تو صرف خوب صورتی کی بنیاد نہ رشتہ نہ کرو!
اگر جاہ و منزلت والے ہیں تو رشتہ صرف جاہ و منزلت کی بنیاد پر نہ کرو!
بلکہ رشتہ کرنے میں دین داری دیکھو!
اگرچہ غریب ہو مگر دین دار ہو تو رشتہ کرلو!
اگرچہ خوب صورت نہیں ہے مگر دین دار ہے تو رشتہ کرلو!
اگرچہ جاہ و منزلت نہیں ہے مگر دین داری ہے تو رشتہ کرلو!
یقین جانو! اگر رشتے دین داری کی بنیاد پر ہوں تو جہیز کی بات ہی نہیں آئے گی۔
نہ جہیز کے لیے لڑکی ستائی جائے گی اور نہ ہی مال دار نہ ہونے کی بنیاد پر غریب لڑکوں کے رشتے رکیں گے۔
یہ ساری تباہی رک سکتی ہے، بس شرط یہ کہ دین داری کو اختیار کرلو!
مگر ہمارا لالچ ہمیں یہ نہیں کرنے دیتا اور پھر جب کوئی بات بگڑتی ہے تو قصور وار دوسروں کو ٹھہراتے ہیں۔
جب کہ قصور وار ہم خود بھی ہوتے ہیں!
اللہ عزوجل ہم سب کو عقل سلیم عطا فرماے
(مقالہ نگار،رکن روشن مستقبل دہلی اورنائب صدر: تحریک علماے بندیل کھنڈ ہیں )