عمیرمنظر
شعبہ اردو
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،لکھنؤ کیمپس
شاید 1986۔87کی بات ہوگی مہینہ تو یاد نہیں جامعۃ الفلاح(بلریاگنج ،اعظم گڑھ) میں طلبہ کے لیے کینٹین کا ڈول ڈالا جارہا تھا۔ مولانا اظہار احمد فلاحی مدنی اور مولانا محبوب عالم فلاحی پیش پیش تھے۔اکثر ایک ہی سائیکل سے دونوں آتے اور کینٹین کے نقشے کو زمین پر اتارنے کی کوشش کرتے۔ ’مرحوم قدیم مطبخ‘ سے متصل زمین اس کے لیے مختص کی گئی۔کچھ دیواریں اٹھائی گئیں اور منصوبہ یہی تھا کہ اس پر چھپر ڈال کر آغاز کیا جائے۔
چھپرکی تیاری میں یہ دونوں فلاحی اساتذہ نہایت متحرک تھے۔چونکہ مولانا محبوب عالم فلاحی پیروں سے معذور تھے اس لیے مولانا اظہار احمد ہی انھیں سائیکل پر بیٹھا کرضروری سامان کی تلاش میں نکلتے تھے۔اور روز کوئی نہ کوئی مہم سر کرتے تھے۔اس کام کے تیسرے رکن رضوان عرف بدھو تھے۔جوش و جذبے اور جوانی سے بھرپور ان لوگوں کی کوششیں مادر علمی سے ان کے خلوص و محبت کی آئینہ دار تھیں۔
بدھو بھیا تو یہاں کے فارغ نہیں تھے لیکن وہ محنت اور کوشش میں کسی سے پیچھے نہیں تھے بلکہ جس محاذ پر ڈٹ جاتے اسے سر کرکے ہی دم لیتے۔ان کی محنتیں رنگ لائیں اور دیکھتے دیکھتے کینٹین کا آغاز ہوگیا۔ یہی پہلا موقع تھاجب مجھے بدھو بھیا کو دیکھنے موقع ملا،وہ بیڑی سے شوق فرمارہے تھے،جس میں کبھی کبھی مولانا محبوب عالم فلاحی کی شرکت بھی ہوجاتی تھی۔
ماں باپ نے ان کا نام رضوان رکھا مگر شہرت بدھو نے پائی۔اگر جامعۃ الفلاح نہ آتے تو عرفیت ہی غالب رہتی مگر فلاح کی وجہ سے بدھو اور رضوان میں آنکھ مچولی ہوتی رہی۔رضوان کہنے والے بیشتر وہی لوگ تھے جن کا فلاح سے کسی نہ کسی طرح کا تعلق تھا اسے ایک طرح سے ایک دانش کدے کا فیض کہنا چاہیے، جہاں انھوں نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ گذارا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے انتقال کی خبر صرف بلریاگنج تک محدود نہیں تھی بلکہ جہاں جہاں فلاحی ہیں وہاں وہاں ان کا ذکر خیر ہوا اور تعزیت کی گئی۔
میری کبھی یہ ہمت تو نہیں ہوئی کہ بڑھ کر ان سے پوچھ سکوں کہ آپ کا یہ نام کس نے اور کیوں رکھا مگر بعد میں جب غور کیا تو عقدہ کھلا کہ نام کا تعلق عقل و دانش سے نہیں ہے بلکہ اس دن سے ہے جس دن یہ پیدا ہوئے۔اسے عوامی زبان کی مجبوری ہی کہا جائے گا کہ بدھ کو پیدا ہونے والا بدھو کہلائے۔اسی طرح سے بعض دوسرے دنوں کی چلتی پھرتی تصویریں ہمارے سماج میں مل جائیں گی۔یہ بھی ایک طرفہ تماشا کہا جائے گا. ان کے جاننے والے بیشتر احباب اس بات کی تصدیق کریں گے کہ شاید ہی کبھی ایسا کوئی معاملہ ہوا ہو جس کی بنیاد پر انھیں بدھو کہا جاتا۔
گزشتہ روز بدھو عر ف رضوان کے انتقال کی خبر کے بعد یہ سب باتیں یاد آرہی ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ پہلی بار ان سے کب ملاقات ہوئی اور نہ یہ کہ آخری بارہم لوگ کہاں ملے تھے لیکن انتقال کی خبر سن کر یہی محسوس ہوا کہ جیسے چند دن پہلے ہی مل کر آیا ہوں۔بعض لوگ اپنے مزاج اور عادات و اطوار سے ا س قدر قریب ہوجاتے ہیں کہ جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی والی کیفیت رہتی ہے۔کچھ یہی حال رضوان عرف بدھو کا بھی تھا۔
زندگی کا ایک بڑا عرصہ انھوں نے جامعۃ الفلاح سے وابستگی میں گذارا۔جب تک جسم وجاں توانا رہے ان کی سرگرمی اور کاموں کو لپک کر کرنے کا جذبہ اور حوصلہ دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔ کینٹین میں کب تک ان کی ڈیوٹی رہی، اس کا صحیح اندازہ تو نہیں مگر اس کے بعد غالباً گیٹ پر ان کی ڈیوٹی ہوا کرتی تھی اور وہیں سے وہ تمام بچوں پر نظر رکھتے تھے۔ انھیں متعدد ذمہ داریاں دی جاتی رہی ہیں اور وہ ہر ذمہ داری کو نہایت خوش اسلوبی اور محنت سے انجام دیتے رہے۔
جب کوئی نئی ذمہ داری دی جاتی تو یہی محسوس ہوتا کہ جیسے اس کام کے سب سے ماہر شخص یہی ہیں۔اپنے کاموں کے سبب ہی وہ اور جامعۃ الفلاح لازم و ملزوم ہوگئے۔کہیں کچھ بھی ہورہا ہو بدھو بھائی وہاں ضرور ملیں گے۔ ان کو دیکھتے دیکھتے یہ تصور ذہن میں بیٹھ گیا تھا کہ کام کے بغیر بدھو بھائی کا کوئی تصور نہیں ہے۔حالیہ دس پندرہ برسوں کی خبر نہیں لیکن اس سے پہلے تو یہی ہوتا کہ بدھو بھائی کام اور ان کی بیڑی ساتھ ساتھ رہتے۔
بارہا ایسے مواقع آئے جب یہ محسوس ہوا کہ تینوں میں مقابلہ چل رہا ہو۔ ان کو دیکھنے اور جاننے والے اس بات کے گواہ ہیں کہ کام کے وقت وہ کام کے سوا کچھ نہیں جانتے تھے نہ انھیں اپنے آپ کا خیال رہتا اور نہ وہ بیڑی جو ان کے آڑے وقت کا سہارا ہوا کرتی تھی۔
جامعۃ الفلاح کے گیٹ کی ڈیوٹی بہت جان لیو ا کہی جاسکتی ہے۔طلبہ مختلف حیلوں اور بہانوں سے باہر جانے کے لیے بے چین رہتے۔ محافظ کی ایماندارانہ ڈیوٹی یہی کہ کوئی باہر نہ جائے۔اس کشمکش کو ذہنی اذیت کے بجائے فرض شناسی کے فن کا حصہ بنانا اسی طرح کے لوگوں کا کارنامہ کہا جاسکتا ہے۔کیونکہ وہ رفتہ رفتہ طلبہ کے حیلوں اور بہانوں کو سمجھ چکے تھے۔یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ وہ کسی طالب علم سے الجھے نہیں ہوں گے مگر جب بھی ایسا کوئی موقع آتا تو بڑے نرم اور دھیمے لہجے میں بات کرتے اور کوئی نہ کوئی ایسی صورت نکالتے کہ طالب علم زیادہ ضد کیے بغیر واپس چلا جائے۔
ایک بار ہم لوگ گیٹ سے باہر جانے کے لیے کسی حیلے کی تلاش میں تھے اور نکلنے کی تگ و دو میں مصروف تھے کہ بدھو بھیاہم لوگوں کے قریب اس طرح آئے جیسے کہ وہ ہمارے بہت ہمدرد ہوں کہنے لگے ”بابو کاتھ مولوی صاحب اوھریاں گئے ہیں“۔زبان تو زیادہ نہیں چلی مگر ہاتھ کا اشارہ بہت دور تک گیا۔ اتنا کافی تھا۔ ہم لوگ خود ہی واپس آگئے۔
اس وقت تو اتنا تجربہ نہیں تھا مگر اب یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ مختلف مواقع پر ٹکراؤ یا کسی طرح کی کشیدگی کے بجائے ایسا راستہ نکالنا کہ اندیشوں کو راہ نہ ملے بلکہ اس کے مواقع کم سے کم ہوجائیں بدھو بھیا کی خاص پالیسی ہواکرتی تھی۔ انھوں نے فلاح کے بعض ایسے معاملات کو بھی بہت خوش اسلوبی سے حل کیا کہ جہاں بعض بڑے ذہین اور چالاک لوگ ناکام ہوگئے تھے۔کسی بھی بڑے ادارے میں صفائی ملازمین سے کام لینا آسان نہیں ہوتا۔وہ اپنی مرضی کے مالک ہوتے ہیں۔فلاح میں عرصہ تک ایک ہی صفائی ملازم ’امیری‘کی حکمرانی رہی۔
اس کی اپنی مرضی پر سب کچھ منحصر تھا۔گذشتہ صدی کی نوئے دہائی میں فلاح کے طلبہ مدرسہ کے اندر صفائی مہم چلاکر اس ہرج کو پورا کرلیا کرتے تھے مگر اب جبکہ یہ دائرہ بہت وسیع ہوچکا تھا اور ایک ہی نہیں بلکہ متعدد ملازمین تھے ایسے میں بتاتے ہیں کہ ان صفائی ملازمین سے خوش اسلوبی کے ساتھ کام لینے کا سہرا بدھو بھیا کے سر ہی جاتا ہی ہے۔
کسی بھی ادارے کی تعمیر و ترقی میں نہ جانے کن کن لوگوں کی کوششیں اور سرگرمیاں شامل ہوتی ہیں شمار نہیں کیا جاسکتا۔بدھو بھیا جیسے لوگ کلاس روم میں جاکر نہیں پڑھا سکتے تھے مگر کلاس روم کے خوش گوار ماحول کے لیے جو کوششیں اور سرگرمیاں انجام پاتی ہیں ان میں کہیں نہ کہیں بدھو عرف رضوان کی شمولیت لازمی تصور کی جانی چاہیے۔ اگر اس تناظر میں بدھو بھیا کو دیکھا جائے تب ان کی کوششوں اور ذمہ داریوں کی اہمیت کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔
بدھو بھیا پکے رنگ کے صاف ستھرے آدمی تھے۔ان کی اب تک جو تصویر آنکھوں میں تیر رہی ہے وہ وہی سفید کرتے اور لنگی والی ہے۔ہنستے مسکراتے اور چہرے پر کسی ناگواری یا کبیدگی کے بغیر اپنے حال میں مست رہتے۔ان کی چال میں دل ربائی کا انداز تھا۔سامنے کی طرف ہلکا سا جھک کر چلتے کہ جیسے زمین سے قریب ہورہے ہوں۔راہ و رسم کی ایک دنیا تھی جن کی خیریت لیتے اور اپنی ’ٹھیک ہوں بابو“کہتے ہوئے گذر جاتے۔
بعد میں جب کسی قدر ان سے کبھی کبھی بات کرنے کا موقع ملتا تو یہی سوچتا کہ فلاح کے ذمہ داران اُن سے دیر دیر تک کیسے باتیں کرتے ہیں۔ خود بدھو بھیا مزدوروں اور دیگر لوگوں کو کیسے کوئی کام بتا تے یا ہدایت دیتے رہے ہوں گے۔ان کا کوئی جملہ ’کاتھ‘کے بغیر مکمل ہی نہیں ہوتاتھا اور کبھی کبھی تو جملے سے ’کاتھ‘کو نکال دیا جاتا تو کچھ بچتا ہی نہیں۔تکیہ کلام کی ایسی نادر اور عمدہ مثال کم ہی ملے گی کہ بولنے والے سے یہ بازی لگائے جائے کہ ایسا کوئی جملہ بول کر دکھاؤ کہ اس میں ’کاتھ‘ نہ آئے۔
بعض سینئر طلبا تو اسے انعامی مقابلہ بنا دیتے۔جیتنے کا کیا سوال مگر اس ہار میں بدھو بھیا کے چہرے پر جو خوشی دیکھنے کو ملتی تھی شادمانی اور فرحت کی یہ کیفیت تو کبھی کبھی عالمی مقابلے کے فاتحین بھی نہیں پیش کرسکتے۔یہی ادائے دلربائی اور انداز خسروانہ ان کی مقبولیت کی دلیل تھا۔
جامعۃ الفلاح سے آئے ایک زمانہ ہوگیا۔مگر وہاں سے تعلق اور لگاؤ کی کیفیت اب بھی وہی ہے۔اساتذہ کے علاوہ اب تقریباً بدھو بھیا ہی رہ گئے تھے۔وہاں پہنچ کر جب بھی ملاقات ہوتی خوش ہوتے۔دعائیں دیتے۔ اگر کسی ساتھی کا چہرہ یادآجاتا تو معلوم کرتے۔ کینٹین میں ملتے تو بہت اہتمام سے چیزوں کو پیش کرنے کی کوشش کرتے یا کسی دوسرے کو متوجہ کرتے۔بدھو بھیا کے پاس تھاکیا۔
گھر اور بچوں کے بعد ان کی جوپونجی تھی وہ جامعۃ الفلاح کے طلبا اور یہاں کے درویوار بس۔بظاہر یہ چھوٹی سی دنیا مگر ان کے لیے جاجم جمشید سے کم نہیں تھی۔روز کوئی نہ کوئی آتا ہی تھاملتے تو یادوں کا ایک جہاں آباد کرلیتے۔اور اب وہی یادیں ان کا ایک بڑا سرمایہ کہی جاسکتی ہیں کیونکہ ان کے جانے کے بعد فارغین فلاح نے انھیں شدت سے یاد کیا۔جو قریب تھے وہ بتاتے ہیں کہ اب پہلے جیسی صحت بھی نہیں تھی۔احتیاط اور پرہیز کا دور شروع ہوچکا تھا مگراتنی جلدی کا گمان نہیں تھا۔
جامعۃ الفلاح کی خوش بختی کہئے کہ اسے ہر دورمیں صالح، بے لوث اورہمدرداحباب ملے، جس نے اسے ایک مثالی اسلامی ادارے کی حیثیت سے مضبوط کرنے میں اپنا سرگرم کردار ادا کیا۔اپنے مثالی جذبے کے سیاق میں اس نظام سے وابستہ کسی فرد کو فروترنہیں گردانا جاسکتا۔ کارکن اپنے کردار کی گرمی سے پہچاناجاتا ہے، بدھو میاں کا سرگرم کردارفلاح میں اس کی شناخت کا استعارہ ہے۔
موبائیل نمبر:8004050865