اعجاز زیڈ ایچ
آج – 25؍مئی 1831بلبلِ ہند،فصیح الملک،عظیم المرتبت اور اردو کے سب سے مقبول ترین شاعر حضرتِ داغؔ دہلوی کا یومِ ولادت ہے۔
نام محمّد ابراہیم تھا، Deتخلص داغؔ لیکن وہ نواب مرزا خان کے نام سے جانے گئے۔ وہ ٢٥؍مئی ١٨٣١ کو دہلی میں پیدا ہوئے، ان کے والد نواب شمس الدین والیٔ فیروز پور جھرکہ کے تھےجنہوں نے ان کی والدہ مرزا خانم عرف چھوٹی بیگم سے با قائدہ شادی نہیں کی تھی۔
نواب شمس الدیں خان کو اس وقت جب داغؔ تقریباً چار برس کے تھے،دہلی کے ریزیڈنٹ ولیم فریزر کے قتل کی سازش میں ملوث ہونے کے الزام میں پھانسی دے دی گئی تھی۔ اس کے بعد جب ان کی عمر تیرہ سال کی تھی ،ان کی والدہ نےاس وقت کی برائے نام مغلیہ سلطنت کے ولی عہد مرزا فخرو سے شادی کر لی تھی۔
اس طرح داغؔ کی ذہنی اور علمی تربیت قلعہ کے ماحول میں ہوئی۔ان کو اپنے وقت کی بہترین تعلیم دی گئی جو شہزادوں اور امرا کے لڑکوں کے لئے مخصوص تھی۔قلعہ کے رنگین اور ادبی ماحول میں داغؔ کو شاعری کا شوق پیدا ہوا اور انہوں نے ذوقؔ کی شاگردی اختیار کرلی ۔نوعمری سی ہی داغؔ کی شاعری میں نیا بانکپں تھا۔
ان کے نئے انداز کو امام بخشؔ، صہبائی،غالبؔ اور شیفتہؔ سمیت تمام اہل علم نے سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔١٥ سال کی ہی عمر میں انہوں نے اپنی خالہ عمدہ خانم کی بیٹی فاطمہ بیگم سے شادی کر لی۔عمدہ خانم نواب رامپور یوسف علی خاں کے تصرف میں تھیں۔
داغؔ ہی ایسے خوش قسمت شاعر تھے جس کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ان کے شاگردوں میں فقیر سے لے کر بادشاہ تک اور عالم سے لے کر جاہل تک ہر طرح کے لوگ تھے۔
پنجاب میں علامہ اقبالؔ ، مولانا ظفر علی،مولوی محمد الدین فوقؔ اور یو پی میں سیمابؔ صدیقی ،اطہر ہاپوڑی،بیخودؔ دہلوی،نوحؔ ناروی اور آغا شاعرؔ وغیرہ سب ان کےے شاگرد تھے۔ داغ کو جو مقبولت اپنی زندگی میں ملی وہ کسی شاعر کو نہیں ملی۔
داغؔ کی شاعری ایک محور پر گھومتی ہے اور وہ ہے عشق ! جنسی محبت کے باوجود انوتن نے عاشقانہ جذبات کا بھرم رکھا ہے اور نفسیاتی بصیرت کا اظہار ان کے یہاں جا بجا ملتا ہے۔ داغؔ کی شاعری میں شبابیات ، عیاشی ،ہوسناکی اور کھل کھیلنے کا جو عنصر ہے اس کے اظہار میں داغؔ نے ایک کیفیت پیدا کر دی ہے۔
عام طور عشقیہ جذبات ہی داغؔ کی شاعری میں دوڑتے نظر آتے ہیں، جنہیں طرح طرح کے رنگ بدلتے دیکھ کر قاری کبھی اچھل پڑتا ہے ،کبھی آزردہ ہوجاتا ہے،کبھی ان حالات کو اپنے دل کی گہرائیوں میں تلاش کرتا ہے اور کبھی داغؔ کی بے پایاں شہرت اور اس میں تفکر کی کمی اسے مایوس کر دیتی ہے۔ان کی غزلیں مترنم بحروں میں ہیں۔ان کی زبان آسان،شستہ اور سادہ ہے۔
١٧؍مارچ ١٩٠٥ کو داغؔ دہلوی، حیدر آباد میں وفات پا گئے۔
مقبول ترین شاعر حضرتِ داغؔ دہلوی کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔
آئنہ دیکھ کے کہتے ہیں سنورنے والے
آج بے موت مریں گے مرے مرنے والے
—
آؤ مل جاؤ کہ یہ وقت نہ پاؤ گے کبھی
میں بھی ہمراہ زمانہ کے بدل جاؤں گا
—
ابھی آئی بھی نہیں کوچۂ دلبر سے صدا
کھل گئی آج مرے دل کی کلی آپ ہی آپ
—
اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ
ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
—
الٰہی کیوں نہیں اٹھتی قیامت ماجرا کیا ہے
ہمارے سامنے پہلو میں وہ دشمن کے بیٹھے ہیں
—
اور ہوں گے تری محفل سے ابھرنے والے
حضرت داغؔ جہاں بیٹھ گئے بیٹھ گئے
—
ناصح کہہ دے محبت میں خدا لگتی کچھ
مدعی لاکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
—
مقابلہ ہے رقیبوں سے روزِ محشر بھی
چھپا ہوا کوئی خنجر مرے کفن میں رہے
—
چڑھاؤ پھول مری قبر پر جو آئے ہو
کہ اب زمانہ گیا تیوری چڑھانے کا