*شوکت علی خاں ایڈوکیٹ* کی وفات ایک ادبی عہد کا خاتمہ ہے۔
*صدام حسین فیضی*
ادبی،سماجی،سیاسی حلقوں میں یہ خبر افسوس کے ساتھ پڑھی جائے گی کہ معروف وکیل،سینئر ادبی شخصیت،بے باک لیڈر،مصنف تاریخ رام پور *شوکت علی خاں ایڈوکیٹ* کا فوڈ پائزنگ کے سبب تین روز بیمار رہنے کے بعد انتقال ہوگیاہے۔اناللہ وانا الیہ راجون۔۔۔۔ جیسے ہی ان کے انتقال کی خبر پھیلی ان کی رہائش گاہ مسجد پیلو واقع راجدوارہ پر لوگ پہنچنے لگے۔
شوکت علی خاں کی ولادت 11 جون 1946 کو رام پور میں ہوئ ہے۔
ابتدائی تعلیم راجدوارہ میں ہوئ۔
رضا انٹر کالج سے 1962 میں انٹر میڈیٹ کیا۔
1967میں لکھنو سے قانون کی ڈگری ایل ایل بی حاصل کی۔اور تب سے ہی رام پور کچہری میں پریکٹس شروع کردی تھی۔
شوکت علی خاں تاریخ رام پور سمیت درجنوں بھر کتابوں کے مصنف مرتب تھے۔
24 اکتوبر کو وہ صولت پبلک لائبریری کے صدر منتخب ہوئے۔اور 4 نومبر کو تقریب حلف برداری کا عظیم الشان پروگرام منعقد کرایاتھا۔
وہ سیاسی سماجی اور ادبی اور ملی شخصیت کے مالک تھے۔
ان کی نماز جنازہ آج پیر کو بعد نماز عصر 4:30 بجے نواب گیٹ واقع گاندھی پارک میں ہوگی اور تدفین مٹھ والا قبرستان میں ہوگی۔
شوکت علی خاں نے اپنے پیچھے دو لڑکیاں جو دہلی اور احمدآباد میں ہیں کےساتھ دو بیٹے وجاہت علی خاں اور فصاحت علی خاں کو چھوڑا ہے۔فصاحت علی خاں ہنگری میں ہیں ۔یاد ہوگا شوکت علی خاں کی اہلیہ کا 2011 میں انتقال ہوگیاتھا۔