طارق انصاری
کچھ جذبے ایسے ہوتے ہیں جن کے اظہار کے لئے مناسب الفاظ کی کمی کا احساس ہوتا ہے ، شاعری بھی انہیں جذبات کے اظہار کا نام ہے ، دل میں اگر حساسیت کا جوہر نہیں ہے تو شاعری کا وجود بے معنی ہوکر رہ جائے گا ، شاعر کا دل محسوسات کے جذبوں کا آئینہ ہوتا ہے۔
آیئے !ہم ایک ایسے شاعر سے آپ سب کا تعارف کراتے ہیں جو کم عمری میں ہی دلی جذبوں کے احساس کا سمندر اپنی ذات میں لےکر ابھرا ہے اس فنکار کو ادبی دنیا ” ذکی طارق “ کے نام سے جانتی ہے ، ذکی طارق اپنے نام کے تناسب سے نہایت ذہین فنکار ہیں ان کی شاعری میں روایت اور جدت کا حسین امتزاج ملتا ہے یہ ہمارے شاگردِ رشید ہیں اور ان کو یہ شرف حاصل ہے کہ ہمارے تمام شاگردانِ عزیز میں سب سے پہلے انہوں نے مجھ سے شرفِ تلمذ حاصل کیا اور مسلسل اپنی مشاقی کی محنتوں کی بدولت پختہ کاری کی دولت سے مالا مال ہوکر بہترین اور عدیم المثال شعر کہنے کا ملکہ رکھتے ہیں۔
اگر میں یہ کہوں کہ بحیثیت استاذ مجھے ان کی شاگردی پر فخر و ناز ہے تو بیجا نہ ہوگا ان کو فنِ شاعری کی ہر صنفِ سخن پر دسترس حاصل ہے وہ چاہے حمد ہو ، نعت ہو ، سلام ہو ، منقبت ہو ، مرثیہ ہو ، قطعہ ہو ، غزل ہو ، نظم ہو یار قصیدہ ، ان کو ہر اصنافِ سخن میں اپنے افکار و خیالات کو بخوبی پرونے کا ہنر آتا ہے ، ان کی شاعری میں آج کے دور کی تازہ کاری اور نئے لہجے کی جھنکار شامل ہے ، اپنے ہم عصر فنکاروں میں ذکی طارق کا ایک نمایاں مقام ہے ، شعری قواعد ہو یا عروض کا نظام ہو یہ اپنے اشعار میں ہر محاسنِ کلام پر باریک بینی کی نظر رکھتے ہیں ، آج پوری دنیائے اردو میں کوئی رسالہ یار اخبار ایسا نہیں ہے جس میں ذکی طارق کا کوئی نہ کوئی کلام شائع نہ ہوا ہو بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ اس وقت پورے ہندوستان میں ذکی طارق کے جتنا اخبارات اور رسائل میں چھپنے والا دوسرا شاعر نہیں ہے کوئی بھی دن ایسا نہیں گزرتا کہ ملک یا بیرونِ ملک کے کسی نہ کسی رسالے یا اخبار میں ان کا کلام نہ شائع ہوتا ہو یہ بہت بڑی بات اور کامیابی ہے ، اسی کے مدِ نظر اب ذکی طارق کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں رہا – ان کے اشعار کی معتبریت اور جامعت سے میں بہت مطمئن ہوں بہ حیثیت ان کے استاذ میں کچھ ا شعار بطور نمونہ پیش کررہا ہوں پڑھ کر اپنی گراں قدر آرا سے ضرور نوازئے گا۔
مرے بدن پہ اگی ایک ننھی پھنسی نے
بتا دی آج مجھے میری حیثیت مولا
بخش دیں میرے نبی نے بیٹیوں کو عظمتیں
منتخب زہرہ کو کرکے دیں کی وسعت کے لیے
مت مار اے یزید کیا تجھ کو پتہ نہیں
دنیا میں ابنِ زہرہ کوئی دوسرا نہیں
یہ وہ ہے موت کے بھی فرشتے کا جس کے گھر منظوری جو نہیں ہے تو پھر داخلہ نہیں
تجھ کو ازبر تو ہوں اخلاقِ ہنر کے آداب
برف کیا چیز ہے پتھر بھی پگھل سکتے ہیں
ادھر کیوں آئے ہو سورج کا یہ علاقہ ہے
تمہیں تو چاہئیں جگنو ادھر تلاش کرو
کیوں نہ تحریر سے اگے تصویر
بزمِ اہلِ ہنر میں رہتا ہوں
جو سانس سانس جسم سے مہکائیں جسم کو
اے طالب شمیم وہ پروائیاں پرکھ
تیغ وخنجر کا مسئلہ ہی نہیں
یعنی ہم برگ گل سے گھائل ہیں
جن پہ لازم تھاعذاب ایسی خطائیں تھیں مری
پھر بھی اللہ نے ہر لمحہ رعایت کی ہے
تیغ وخنجر کا مسئلہ ہی نہیں
یعنی ہم برگ گل سے گھائل ہیں
جن پہ لازم تھاعذاب ایسی خطائیں تھیں مری
پھر بھی اللہ نے ہر لمحہ رعایت کی ہے
ہم نے خود کرلیا اس کو مشکل بہت
ورنہ مشکل نہیں زندگی کا سفر
مجھ سےانجان اور مری تحریر میں کھویا ہوا
کل ملا وہ مجھ سے میرا تذکرہ کرتا ہوا
تمہیں قریب سے دیکھا تو یہ ہوا احساس تمہارا چہرہ نہ ہو کوئی پھول ہو جیسے
آرزو ہے کہ تجھ کو چھونے کا
خوبصورت سا اک گناہ کروں
غم بیز بہت تھیں نشاط انگیز بہت تھیں
وہ زاویہ ہر لمحہ بدلتی ہوئی آنکھیں
مانگے تھے اظہارِ غم کے واسطے بس چند لفظ اس نے اقلیمِ سخن مجھ بے نوا کو سونپ دی
ملے ہیں پھول سے لہجے بھی زہر اگلتے ہوئے
تمہارے حسن کا گردش میں ہے ستارہ اب
دیکھیں کیسے آتی ہے پھر یہ شامِ مایوسی
لاؤ آج سورج کو قید کر لیا جائے
بڑا عجب ہے کہ پہلے تو درد بخشا گیا
پھر اس کے بعد اسی درد کی دوا دی گئی
وہ درد جو کسی کو خوشی بخش کر ملے
اس درد کو گلے سے لگا لینا چاہیے
بکھیر ذات سے اپنی وہ نکہتِ اخلاق
کہ گھر سے تنہا نکل اور قافلہ بن جا
چھا جا مرے وجود پر بن کر سوال تو
پھر دیر تک حسین جوابوں میں رقص کر
بہارِ نو ترے دامن میں آتش گل ہے
برہنہ شاخوں پہ پھولوں کا اب لباس نہ رکھ