Urdu News

تقابل مذاہب ایک دلچسپ تحریر

تقابل مذاہب

 

 تقابل مذاہب

تحریر : ایاز انجم 

 Comparative Religions:
جس نے مذہب کے بارے میں سابقہ افکار دل کھول کر رکھ دیئے ہیں۔ نوع انسان کے عقائد اوروں کا مطالعہ اہل علم کے ذوق تجسس کی تسکین کا باعث نہیں ہوتا، بلکہ احتیاط برتی ہوجائے تو ترقی کا باعث بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ وہ بعض ایسی بنیادوں کے کھوکھلے پن کو واضح کردیتا ہے، جو فی الحقیقت توہمات کی ریت پر اٹھائی گئی ہیں۔ ایسی بنیادوں کو اکھاڑنا جو صدیوں سے انسان کے لئے مصائب و آلام کے وقت پناہ گاہوں کا کام دیتی رہی ہیں، کوئی خوشگوار کام معلوم نہیں ہوتا، لیکن جلد یا بدیر تقابلی مطالعہ ان شکستہ دیواروں پر جو ہزاروں مقدس یادوں کی گھنی بیلوں، گھانس پھونس اور پھولوں سے ڈدھکی ہوئی ہیں، رخنے ڈال دے گا۔ اس وقت تو ہم توپوں کو کھینچ تان کر ہی آگے لارہے ہیں، انکے داغنے کا وقت ابھی آیا۔ قدیم بو سیدہ شکستہ عمارتوں کو گرا کر انکی مظبوط عمارتیں بنانا مستقبل ہی میں ممکن ہو سکے گا، لیکن عدم تیقن اور قدامت کا یہ پاس ہماری راہ میں رکاوٹ نہیں بن سکتا ، ہم تو صرف حق و صداقت کی پیروی کرسکتے ہیں، خواہ وہ ہمیں کہیں بھی لے جائے اور خواہ اسکا نتیجہ کچھ بھی ہو، صداقت وہ تابناک ستارہ ہے جو ہماری راہنمائی کرسکتا ہے۔
الکندی ن نویں صدی عیسوی میں تحریر کیا تھا کہ ہم سچائی تسلیم کرنے میں نہ شرمائیں اور جہاں کہیں سے بھی وہ حاصل ہو، اسے جذب کرلیں ۔ جو سچائی کی تلاش میں نکلتا ہے، اسکے لئے خود سچائی سے زیادہ قیمتی کوئی نہیں، یہ اسے کبھی کم حیثیت نہیں بناتی کبھی رسوا نہیں کرتی۔
تقابلی مذہب ایک نہایت وسیع سیر لاحاصل اور زرخیز موضوع ہے۔ اسے ان اوراق میں سمیٹنا محال تو نہیں ، بے حد مشکل ضرور ہے۔ اس اشکار کے پیش نظر ہم تقابلی مذاہب کا انتخابی مطالعہ ہی کریں گے اور صابئیت اور مجوسیت کے ان اثرات کا مختصر تجزیہ کریں تو اسرائیلی مذاہب یعنی یہودیت، عیسائیت اور اسلام پر مرتسم ہوئے۔
اور ایک بات اور۔۔ علوم و فنون کو کفر و ایمان کے معیار پر جانچنا غیر ضروری ہے، کیونکہ علوم و فنون کافر یا فاسق نہیں ہوتے اور تمام نوع انسانی کا مشترکہ سرمایہ سمجھے جاسکتے ہیں۔ اپالو کا مجسمہ ہو یا اصطخر کے استون، اجنتا کے دیواری نقوش ہوں یا سسٹائن گرجے کی چھت، الحمراء کا شیروں والا دلان ہو یا کیوٹو کا بدھ کا مجسمہ، شیکسپئیر کی رومیوو جولیٹ ہو یا امراء القیس کا قصیدہ، افلاطون کی جمہوریہ ہو یا بدھ کی دھماپد ، سیفو کے گیت ہو یا مرزا غالب کی غزلیں تان سین کی درباری ہو یا باغ کا نغمہ سب نوع انسانی کو بلاتفریق ملک و قوم اور مذہب و ملت ہمیشہ مسرت کی دولت بخشتے رہیں گے۔۔
دنیا کے اکثر مذاہب سورج کی پوجا اور لنگ پوجا سے نکلے ہیں۔ صائیبیت ستارہ پرستی اور دنیا کا قدیم ترین مسلک ہے۔ صائیبن سورج کو نیرا اعظم اور خداوند کہتے تھے اور بعل اور مردوخ کے نام سے اسے پوجتے تھے۔ مجوسی بھی سورج کو پوجتے تھے، لیکن اسکو متھرا کہتے تھے۔ صائیبن بابل سورج اور اسکے گرد چکر لگائے والے سات سیاروں کی پرستش بڑے اہتمام سے کرتے تھے۔ ان سب کے لئے الگ الگ معبد قائم کئے گئے، جن میں انکے سجے سجائے بت رکھے گئے۔ انکے نام پر ہفتے کے سات دن معین کئے گئے اور ہر دن کا نام کسی نہ کسی سیارے کے نام پر رکھا گیا۔ پروہتوں نے انکی گردش کا صدیوں تک مشاہدہ کیا اور علم ہیئت کی بنیاد رکھی۔ انہوں نے سورج اور چاند گرھن کا راز بھی معلوم کرلیا تھا۔ اسطرح سائنس اور مذہب دونوں صابئیت کے دامن میں پرورش پاتے رہے۔ صائبین اپنے دیوتاؤں کو خوش رکھنے کے لئے ان پر انسانی قربانی چڑھاتے تھے اور اس قربانی کے واسطے ان سے مراد یں مانگتے تھے۔ انکی قربانیوں کے طریقے بعد میں اسرائیل عرب کنعان اور یونان میں رواج پاگئے۔ سو ختنی قربانی میں بابلیوں سے ماخوذ ہے۔ مولک کے سامنے بچوں کی سوختنی قربانی کے ساتھ بیلوں ، بکروں اور مینڈھوں کی بھی قربانی کی جاتی تھی۔ صابئین اپنے معبدوں کے لئے عظیم الشان معبد تعمیر اور ان میں منارے کھڑے کئے، جن پر بیٹھ کر وہ راتوں کو اجرام فلکی کا مشاہدہ کیا کرتے تھے، انکے معبد میں ایک قربان گاہ ہوتی تھی، جسکے ساتھ ایک کشادہ ایوان تعمیر کیا جاتا تھا۔ ایوان کے باہر صحن میں حوض وضو ہوتا تھا ، بعد میں یہودیوں عیسائیوں اور مسلمانوں کی عبادت گاہیں اس معبد کے نمونے پر تعمیر کی گئیں۔
صائنین کی معبدگاہ میں محراب وہ جگہ ہے جہاں دیوی عشتار کی مورتی رکھی جاتی تھی۔ مسلمانوں کی مساجد کو حوض وضو بھی صائیبین کے معبد ہی کی یادگار ہے۔ صائبیان کے یہاں کہانت کی روایت تھی۔ کہانت کا لغوی معنی ہے پیش گوئی کرنا اور غیب کی باتیں بتانا بتلانا۔ عربوں میں اسے عرافت بھی کہتے ہیں۔ کاہن (لغوی غیب دان) کا وجد و حال کی حالت میں غیب کی باتیں بتاتا تھا۔ جب کوئی شخص ان سے غیب کی بات پوچھتا ، کاہن بخور ہلاتے جنکی خوشبو سے وہ مست و بیخود ہوجاتا اسکے ساتھ سازوں کی دل آویز سریں بلند ہوتی، جنہیں سن کر وہ بے خود ہوجاتےاور وارفتگی میں مقضی جملوں میں پیشن گوئی کیا کرتے تھے۔ عرب میں اسلام سے پہلے کاہن اسطرح کی غیب بینی کیا کرتے تھے۔ کتابوں میں انکے نام گنوائے گئے ہیں۔ یہودیوں کے ہاں کہانت کی روایت نے رواج پایا تو کاہن کو عبرانی میں نبی کہنے لگے (نبی سے مشتق ہے بہ معنی خبر دینے والا) یعنی جو غیب کی خبر دیتا ہے۔ عہد نامہ قدیم میں اس قسم کے کئی مجذوبوں اور نبیوں کا ذکر آیا ہے جو نبوت کرتے تھے ، یعنی غیب کا حال بتاتے تھے۔
یہودیوں، مسلمانوں نے رکوع و سجود کے طریقے بھی صائیبین اور مجوسیوں سے سیکھے تھے۔ مجوسیوں ، یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں نماز پڑھنے کے طریقے بھی صائیبین سے لئے گئے ہیں۔ صائیبین ایک مہینے کےروزے بھی رکھتے تھے، وہ مقدس چٹانوں کا طواف کرتے ااور اپنے معبدوں کو غلاف سے ڈھک دیتے تھے ( مسلمانوں میں یہ آج تک رائج ہے)۔ مکہ اور حمص میں مقدس پتھروں کے لئے معبد تعمیر کئےگئے تھے، جنکی پوجا انکا طواف کرکے کی جاتی تھی۔ صائیبی طواف کعبہ بھی کرتے تھے اور کعبے کے گرد سات چکر لگاتے تھے۔ صائیبین کے عقائد سے اسلام بالکل مماثل تھا۔
اس بات کی جانب توجہ دلانا مناسب ہوگا کہ صلوٰۃ، ملک (فرشتہ)، مصحف (الہامی کتاب) شیطان، صدقہ زکوٰۃ، عشر وغیرہ کے الفاظ عبرانی زبان ہی سے عربی میں آئے ہیں۔ یہودیوں کا "شولوم علیغم (تم پر سلامتی ہو) مسلمانوں میں سلام علیکم بن گیا۔ متعہ بھی یہودیوں کے ہاں رائج تھا۔ ہر گرنجے کے الفاظ ہیں " ربی نعمان اور راب جب سفر کرتے تو شہر میں عورتوں سے عارضی نکاح کرتے تھے۔ مسلمانوں میں امام جعفر صادق متعہ کے قائل ہیں کیونکہ رسالت اور خلیفہ اول کے زمانے میں متعہ کا عام رواج تھا۔ یہودیوں نے زکوٰۃ و عشر کنعانوں کے وسیلے سے صائیبین سے اخذ کئے تھے، جیسا کہ آئندہ ذکر کرونگا۔ شیطان اور فرشتوں کے تصواروات مجوسیوں سے یہودیوں نے لئے اور پھر عیسائیت اور اسلام میں رائج ہوگئے۔ اسلامی شریعت اور فقہ بھی شریعت موسوی کی مانند قصاص پر مبنی ہے اور اسکا اصول ہے 'آنکھ کے بدلے آنکھ، دانت کے بدلے دانت' ۔ ختنہ بھی بنی اسرائیل مصر سے لائے تھے۔ مصر میں دھرتی کے پجاری اپنے آلات تناسل کاٹ کر دیوی کو بھینٹ کیا کرتے تھے۔ بعد میں صرف حشفہ کا غلاف کاٹ کر اسکا نذرانہ دینے لگے، جس سے ختنہ کا رسم کا آغاز ہوا۔
صائیبیت اور مجوسیت کے اثرات اسرائیلی مذہب عیسائیت اور اسلام کے رسوم شعائر تک محدود نہیں رہے، بلکہ انکے افکار کو بھی روح کی گہرائیوں تک متاثر کیا۔ تکوین مائنات، تخلیق آدم، عالمگیر سیلاب (سیلاب نوح) شیطان، فرشتوں، جنت دوزخ، مسیحا، مہدی، شفیع کے تصوارات کا ماخذ بھی صائیبیت ہی کو سمجھا جاسکتا ہے۔
تکوین کائنات اور تخلیق آدم کے متعلق صائبی روایت یہ ہے کہ خداوند بعل مردوخ نے چھ دن میں کائنات کو بنایا اور ساتویں دن آرام کیا۔ چنانچہ ساتواں دن آرام کا مقرر ہوا۔ کلدانی میں اس دن کو شبوتا کہتے تھے، جو یہودیوں میں سبت یا سنیچر
.  کا دن مقرر ہوا۔ بعد میں عیسائیوں نے اتوار اور مسلمانوں نے جمعہ کو اپنا سبت بنالیا








Recommended