Urdu News

اسلام کا تصور سیاست اور عصر حاضر میں اس کی معنویت

اسلام کا تصور سیاست اور عصر حاضر میں اس کی معنویت

معاذ حیدر، کولکاتا

اجتماعی زندگی میں نظم و نسق قائم کرنے، اور ملکی نظام کو استوار کرنے کی سعی کرنے کو”سیاست“ کہتے ہیں، اسلام میں اس کی بڑی اہمیت ہے، اور کیوں نہ ہو جب کہ یہ ایک کامل و مکمل نظام حیات ہے، زندگی کا کوئی گوشہ اور شوشہ ایسا نہیں ہے جس میں اس کی رہنمائی نہ ہو، اس میں ایک طرف عبادت و روحانیت ہے تو دوسری طرف حکومت و سیاست بھی ہے، اور اس کے سیاسی نظام کے سامنے تمام مذاہب کا نظام کوئی حیثیت نہیں رکھتا، اس کا نظریہ دیگر نظریوں کے مقابلے میں اعلی و ارفع ہے، فطرت سلیمہ کے عین موافق ہے۔

 الحاصل اسلام کا سیاسی نظام ایک کامل و مکمل نظام ہے، اس بارے میں شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہؒ (661 – 728ھ) فرماتے ہیں: ”إن ما وافق الشرع هو المعقول الصريح، وهو الذوق الصحيح، وهو السياسة الكاملة، وإن ما خالف ذلك هو من أمور أهل الجهل والظلم“ (شریعت کے موافق نظریہ اور عمل ہی سیاسی کاملہ ہے، اور شریعت کے مخالف نظریہ ظلم اور جہل ہے۔) [درأ تعارض العقل والنقل، الوجه التاسع، ٣١٩/٥ ، بحوالہ دارالعلوم دیوبند اور سیاست، ص 85-86]

چناں چہ سیاست کو شریعت کے منافی اور شریعت کو سیاست کے مخالف سمجھنا درست نہیں ہے؛ اس لیے کہ اس طرح کے نظریے سے اسلام کو دیگر ادیان باطلہ کا محتاج قرار دینا لازم آتا ہے جو کہ غلط ہے، اس تصور کے حامل شخص پر علامہ ابن قیمؒ (691 -751ھ) نے بڑے استعجاب کا اظہار فرمایا ہے، اور اسے کم فہم کہا ہے، فرماتے ہیں: ”فکیف یظن أن شريعته الكاملة التي ما طرق العالم شريعة أكمل منها ناقصة تحتاج إلى سياسة خارجة عنها تكملها، ومن ظن ذلك فهو كمن ظن أن بالناس بالناس حاجة إلى رسول آخر بعده، وسبب هذا كله خفاء ما جاء به على من ظن ذلك وقلة نصيبه من الفهم“ [أعلام الموقعين، العمل‌ بالسیاسة، 2/286، بحوالہ دارالعلوم دیوبند اور سیاست ص: 86]

جب یہ بات واضح ہوگئی کہ شریعت مطہرہ میں سیاست منقحہ بھی شامل ہے، اور تمام بلاواسطہ اور بالواسطہ عبادتوں کی ادائیگی کو آسان بنانے؛ بلکہ ان کے دائرۂ عمل کو وسیع تر بنانے کا عمدہ ذریعہ ہے، تو اب اس کے تصورات و نظریات کو سمجھنا ضروری ہے۔

اسلام کا تصور حاکمیت

اسلامی سیاست کے تصور کی سب سے اہم بنیاد یہ ہے کہ اس کائنات میں اصل حاکمیت کا درجہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو حاصل ہے، یعنی اقتدار وحکومت، جاہ و منصب اور قانون سازی کا اختیار صرف اور صرف انھیں کو ہے، یہ سب خدائی کام ہیں، ان امور میں دخل اندازی منصب انسانی کے منافی ہے، قرآن کریم میں اس مفہوم کو متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے، جیسے:

(1)”ألا له الخلق والأمر“(یاد رکھو! تخلیق بھی اسی کی ہے اور ملک بھی اسی کا ہے۔) [الأعراف: 54]

(2)”ألا له الحكم“(ياد ر کھو! حاکمیت صرف اسی کو حاصل ہے) [الأنعام: 62]

(3)”ولله ملك السماوات والأرض“(اور اللہ کے لیے آسمان اور زمین کی بادشاہت ہے) [آل عمران: 189]

(4)”قل اللهم مالك الملك تؤتى الملك من تشاء“(کہو کہ یا اللہ! اے سلطنت کے مالک! تو جس کو چاہتا ہے سلطنت بخشتا ہے) [آل عمران: 26]

یہ تمام کی تمام آیتیں اس حقیقت کو واشگاف کر رہی ہیں کہ حاکمیت اس کائنات میں صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کو حاصل ہے، اور حاکمیت کا مفہوم یہ ہے کہ ”دوسرے کے پابند ہوئے بغیر حکم جاری کرنے اور فیصلے کرنے کا کلی حق ہونا“ (اسلام اور سیاسی نظریات ص: 174) اور ظاہر ہے کہ یہ حق اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہے، کسی اور کو اس معنی میں حاکم‌ قرار دینا گویا ربِ کائنات کے ساتھ اس کو شریک کرنا ہے، جوکہ گناہ کبیرہ ہے اور جرم عظیم ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے ”إن الشرك لظلم عظيم“ (لقمان: 13)

لہذا احکام الٰہیہ ہی اسلامی سیاست کے بنیادی ماخذ ہیں جن میں صبحِ قیامت تک تغیر و تبدل کی گنجائش نہیں ہے؛ الغرض رب العالمین کا اقرار ہی وہ بنیاد ہے جو سیاست اسلامیہ کو دیگر مذاہب سے ممتاز کرتی ہے، جمہوریت و سیکولر ازم سے اس کو جدا کرتی ہے؛ اس لیے کہ ان میں حاکمیت کا تصور اللہ کے بجائے غیر اللہ کے لیے ثابت ہے، ان میں سے بعض نظریوں میں حاکمیت کا درجہ مذہبی پیشواؤں کو دیا گیا ہے جن کی مذمت قرآن‌ میں کی گئی ہے: ”اتخذوا أحبارهم ورهبانهم أربابا من دون الله“ (ان لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو پرودگار بنالیا ہے۔) [توبہ: 31]

بعض نظریات میں پارلیمنٹ کو یہ درجہ دیا ہوا ہے جس سے اس کے ممبران جو چاہتے ہیں بِل پاس کرتے ہیں، جس دفعہ میں چاہتے ہیں ترمیم کرتے ہیں جس سے نظام بجائے منظم‌ ہونے کے مزید مختل ہوتا جارہا ہے، ظلم و استبداد کا خاتمہ تو دُور اس میں اور تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، نیز حقوق انسانی کا ضیاع، عصمت دری کا عموم اور غارت گری کی کثرت اس پر مستزاد۔

لہذا صفحۂ ہستی سے ان برائیوں کو ختم کرنے، اس چمن میں پھر سے بہار لانے اور ظلمت کدہ کو رحمت کا گہوارہ بنانے کے لیے احکام الہٰی کا نفاذ بہت ضروری ہے، اور اس کی سب سے بنیادی شرط ”اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کا اقرار“ ہے۔

خلافت در اصل نیابت الہٰی ہے

جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہی اصل حکم ہے اور ان کا قانون ہی اصل ہے تو خلیفہ رب العالمین کا نائب ہوگا اور امرِ خلافت میں اس کے تابع ہوگا، قرآن میں اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ: ”يا داؤد! إنا جعلناك خليفة في الأرض“ (اے داؤد! ہم نے روئے زمین پر تمھیں اپنا نائب بنایا ہے۔) [ص: 26]

علامہ ابن خلدونؒ (732 – 808ھ) نے خلافت کی جو تعریف ذکر کی ہے اس سے اس کا مقصدِ اصلی پوری طرح نمایاں ہوتا ہے: ”حمل الكافة على مقتضى النظر الشرعي في مصالحهم الأخروية والدنيوية الراجعة إليها“ [مقدمة ابن خلدون، الباب الثالث، الفصل الخامس والعشرون، ص: 189؛ بحوالہ اسلام اور سیاسی نظریات ص: 180] (لوگوں کو شرعی طرزِ فکر کے مطابق چلانا جس‌ سے ان کی آخرت کی مصلحتیں بھی پوری ہوں، اور وہ دنیوی مصلحتیں بھی جن‌ کا نتیجہ آخرکار آخرت ہی کی بہتری ہوتی ہے۔)

بہر کیف! امیر کا اللہ تعالیٰ کی نیابت میں امور سلطنت کو انجام دینا اسلام کے بنیادی تصورات میں سے ہے، جو دیگر نظاموں میں معدوم ہے؛ بلکہ ان نظاموں میں امور سلطنت بادشاہ کی جاگیر ہوتی ہے، وہ اس میں جیسے چاہتا ہے تصرف کرتا ہے، جس کے سبب سے “حقوق“ تلف ہوجاتے ہیں، ”حریت“ غلامیت سے بدل جاتی ہے، جب کہ اسلام میں معاملہ ایسا نہیں ہے؛ بلکہ اس میں تو خلیفہ تنفیذِ احکام اور تصرفِ امورِ مملکت میں پابند ہوتا ہے، مطلق العَنان نہیں ہوتا۔

اسلامی سیاست کے اہداف

شریعت کا کوئی پہلو بھی مقاصدِ حسنہ سے خالی نہیں ہے، چناں چہ اس کی سیاست بھی عمدہ مقاصد اور عظیم اہداف سے پُر ہے، مثلاً: اچھائیوں کا عموم، برائیوں کا سدِّ باب اور رعایا کی اصلاح و تربیت وغیرہ۔ جب کہ دیگر نظاموں میں ان باتوں کا تصور محض ایک اضافی اصطلاح کے طور پر ہے، زیادہ سے زیادہ ان کا مقصد خوشی فراہم کرنا، اور چیزوں کو مہیا کرنا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے یہاں ”خیر و شر“ کا کوئی معیار مقرر نہیں ہے، ایک ہی چیز ایک زمانہ میں بھلی اور دوسرے زمانہ میں بری معلوم ہونے لگتی ہے، ان کے پاس ”خیرِ مطلق اور شرِّ مطلق کا کوئی تصور ہی موجود نہیں ہے۔“ (اسلام اور سیاسی نظریات، ص: 181)

جب کہ اسلام میں ”خیر و شر“ کا معیار موجود ہے، اس کا اولین مقصد ہی اچھائیوں کا عموم ہے، جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ: ”الذين إن مكناهم في الأرض أقاموا الصلاة، وآتووا الزكاة، وأمروا بالمعروف، ونهوا عن المنكر، ولله عاقبة الأمور“ (يہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انھیں زمین میں اقتدار عطا کریں تو یہ نماز قائم کریں، زکوٰۃ ادا کریں، نیکی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں، اور تمام معاملات کا انجام اللہ ہی کے قبضہ میں ہے۔) [حج: 41]

یہی وہ عمدہ مقاصد ہیں جن پر سیاستِ اسلامیہ کی بنیاد ہے، ان میں سے ہر ایک بڑی اہمیت کا حامل ہے، اپنے مقصود کو شامل ہے، نظامِ اسلامی کی برتری کو ثابت کرنے میں عامل ہے، آنے والے صفحات میں اس کی کچھ تفصیل لکھی جارہی ہے۔

اقامتِ صلاة: اسلامی سیاست میں

اسلامی سیاست کا بنیادی ستون نماز کا قیام ہے؛ چوں کہ سیاست کا مقصد تربیت ہے، اور اس میں ”ذہنی تربیت“ اصل ہے اور نماز اس سلسلہ میں بڑی مؤثر ہے؛ اس لیے اس کا قیام ”امورِ سیاست“ کے استحکام کے لیے ضروری ہے، چوں کہ رعایا کی اطاعت ہی استحکام کے لیے بنیادی شرط ہے اور بغیر تربیت کے اطاعت کا کمال حاصل نہیں ہوا کرتا، اسی وجہ سے ”نماز“ کی تاکید کی گئی ہے؛ تاکہ ذہنی تربیت کے ساتھ ساتھ پورے اعضاء و جوارح کی تربیت ہوجائے، جس کے اثرات کا مشاہدہ  مخالف ماحول میں ہوا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ”إن الصلاة تنهى عن الفحشاء والمنكر“ (یقین جانو کہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔) [العنکبوت: 45]

نیز دور صحابہ میں بھی اس کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا اور تربیت میں اس کو مقدم رکھا جاتا تھا، اور اما‌رت کے ساتھ امامت کی ذمہ داری بھی سنبھالی جاتی تھی، چناں چہ امام مالکؒ (متوفی: 179ھ) نے اس حوالے سے اپنی مؤطا میں یہ روایت نقل فرمائی ہے:”عن نافع مولى عبدالله بن عمر أن عمر بن الخطاب رضي الله عنه- كتب إلى عماله أن أهم أمركم عندي الصلاة، فمن حفظها وحافظ عليها حفظ دينه، ومن ضيعها فهو لما سواها أضيع“(حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے اپنے گورنروں کو یہ خط لکھا کہ میرے نزدیک تمھارے تمام کاموں میں سب سے اہم چیز نماز ہے؛ لہذا جو کوئی اس کی حفاظت کرے گا اور اس کی پابندی کرے گا، وہ اپنے دین‌ کی حفاظت کرے گا، اور جو کوئی نماز کو برباد کرے گا، اس کے دوسرے کام زیادہ برباد ہوں گے۔) [مؤطا امام مالک، وقوت الصلاة، ص: 6، ج: 1؛ بحوالہ اسلام اور سیاسی نظریات، ص: 182]

زکاۃ کی ادائیگی خوش حالی کی ضامن

حکومت اسلامیہ سے کسی خاص طبقہ کا‌ مفاد مقصود نہیں ہے؛ بلکہ اس کا مقصد کمزوروں کی داد رسی کرنا، غریبوں کا خیال رکھنا، خوش حالی کو عام کرنا اور زبوں حالی کا خاتم کرنا ہے؛ ان امور کی تکمیل کے لیے ”زکاۃ“ ایک شاندار طریقہ اور بہترین ذریعہ ہے، جب کہ دیگر مروجہ نظام میں ان چیزوں کا تصور کبھی حاشیۂ خیال میں بھی نہیں آیا کرتا؛ بلکہ اس میں خستہ حالی کو زائل کرنے کی تدبیروں کو سوچنے کے بجائے خستہ حال لوگوں کی نسل کُشی اور بیخ کَنی کرنے کی پالیسیاں بنائی جارہی ہیں۔

لہٰذا اسلام میں زکوٰۃ کی بڑی تاکید کی گئی ہے اور نماز کے ساتھ اس کو بیان کیا گیا ہے، آج اگر دنیا بھر کے اقتصادی نظام کا جائزہ لیا جائے تو چہار جانب ”ارزانی و پریشانی“ کا شور و غُل ہے، اس کو دُور کرنے کے لیے وہی کرنا ہوگا جو اسلام نے بتایا ہے، ایک ”سودی نظام کا اختتام“ اور دوسرا ”زکوٰۃ کی اداۓ گی کا اہتمام“ ان چیزوں کی رعایت ہمارے اقتصادی نظام کو اَوجِ کمال پر پہنچانے کی ضامن ہے، فلیعمل العاملون۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر ایک اہم فریضہ

اسلام میں خیر و شر کا معیار متعین ہے اور حکومت کے قیام کا بنیادی مقصد بھی ”اچھائیوں کو فروغ دینا، اور برائیوں کا خاتمہ کرنا“ ہے؛ لہذا اس کے اعلیٰ معیار (امر بالید و تغییر بالید) کا مکلف حکومت کو بنایا گیا ہے، جیساکہ فتاویٰ عالمگیریہ میں ہے: ”و یقال: الأمر بالمعروف باليد على الأمر، وباللسان على العلماء، وبالقلب لعوام الناس، وهو إختيار الزندويستي، كذا في الظهيرة“ [الفتاوى العالمكيرية، كتاب الكراهة، باب: 17، 5/353؛ بحوالہ اسلام اور سیاسی نظریات ص: 187]

اس کے مقابلے میں وہ نظام جو خیر وشر کا مطلق تصور نہیں رکھتا، نیز اس کے نصب العین میں خوبیوں کو فروغ دینا شامل نہیں ہے تو بھلا ان کے ہم نواؤں کو حکومت کرنے کا کیوں کر حق ہو؟ والأمر إليك فانظر!

حكومت سے مقصود عدل و انصاف کا قیام

اسلامی حکومت کا بنیادی مقصد ”قیامِ عدل“ ہے،‌‌ اس کے اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد‌ علیہ السلام کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:”یا داؤد! إن جعلناك خليفة في الأرض، فاحكم بين الناس بالحق، ولا تتبع الهوى فيضلك عن سبيل الله“ (اے داؤد! ہم نےروۓ زمین پر تمہیں اپنا خلیفہ بنایا ہے، تو تم لوگوں کے درمیان انصاف سے فیصلہ کرو، اور خواہش کی پیروی مت کرو پھر تو وہ تمہیں اللہ کے راستہ سے ہٹا دے گی) [ص: 27] اس میں عدالتی فیصلے اور انتظامی و اجتماعی امور کا حق پر مبنی ہونا بھی داخل ہے؛ البتہ وہ معیار مقصود ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول نے‌‌ مقرر کیا ہے،  لہذا وہ فیصلہ جو اس معیار کے موافق نہ ہو وہ عدل نہیں ہے؛ بلکہ ظلم‌ ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے:”ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون“(اور جو شخص اُس بات كا حكم نہ کرے جو اللہ تعالیٰ نے اتاری ہے تو وہ لوگ ظالم ہوں گے) [مائدۃ: 45]

اس لیے جب آپ اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو آپ کو ایسی مثالیں ملیں گی جو ”اسلامی سیاست“ کے عدل و انصاف کے روشن باب کو اجاگر کرتی ہیں کہ قاضیوں نے سربراہوں کے خلاف نہ صرف مقدمہ چلایا؛ بلکہ ان کے خلاف فیصلہ بھی سنایا ہے، جیسا کہ مشہور ہے کہ قاضی شریحؒ نے امیر المؤمنین حضرت علیؓ کے خلاف فیصلہ دیا، جب کہ ان کا فریقِ مخالف ایک یہودی تھا؛ مگر آج کے جمہوری نظامِ حکومت میں سربراہوں کے خلاف فیصلہ سنانا تو درکَنار؛ مزید ان کو اس حد تک اختیار دیا ہوتا ہے کہ وہ جس مجرم کی چاہیں سزا معاف کروا دیں۔

خواہ نچلی عدالت سے عدالتِ عظمیٰ تک اس کی سزا یابی پر اتفاق کیا گیا ہو، جس کے سبب سے جرائم کی شرح میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اس کے علاوہ اسلام اپنی حکومت میں ہر مذہب والے کو یہ آزادی دیتا ہے کہ وہ نکاح و طلاق اور میراث و وصیت میں اپنے مذہب پر عمل کرے۔ چناں چہ فرمایا گیا ہے: ”اتركوهم و ما يدينون“ (ان کو اپنے مذہب پر عمل کرنے دو) [التقریر و التحریر، فصل فی شرائط الراوی، مسئلۃ تخصیص السنۃ بالسنۃ، ج: 2، ص: 310، بحوالہ اسلام اور سیاسی نظریات، ص: 195]

اس کے علاوہ دیگر نظام میں آزادی کا دعویٰ تو ہے؛ لیکن در حقیقت آزادی دی نہیں جاتی ہے؛ بلکہ اُن امور میں جن کا تعلق عقیدے سے ہے، ملکی قوانین کے مطابق عمل کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے، جیسا کہ ہم اپنے دیار میں اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔

اسلام میں تأھیلِ امارت کا ایک معیاری تصور

ان مقاصد حسنہ کو بروئے کار لانے کے لیے ایک نظام کا ہونا اور اس کا ایک منتظم ہونا ضروری ہے، اور اس کے لیے اس کے اندر اہلیت کا ہونا ایک لازمی امر ہے، اسلام نے اس کا عمدہ معیار مقرر کیا ہے جس کو ذیل میں درج کیا جاتا ہے:

(1) عاقل و بالغ ہونا: عاقلین و مکلفین کے سربراہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ بھی احکام شرعیہ کا مکلف ہو؛ اس لیے کہ غیر مکلف، مکلف سے کم درجہ کا ہوتا ہے اور عاقل، غیر عاقل سے اعلیٰ اور اونچے مرتبت والا ہوتا ہے، لہذا امارت کے لیے عقل و بلوغت دونوں کی شرط لگائی گئی ہے۔

(2) مسلمان ہونا: مقاصد اسلامیہ کی تنفیذ کے لیے حاکم کا خود مطیع و منقاد ہونا ضروری ہے؛ اس لیے کہ اطاعت کا نہ ہونا ”سفاہت“ہے، جب کہ اسلامی احکام مبنی بر عدل ہیں، چناں چہ”سفیہ“عادل نہیں ہو سکتا، اور سفاہت کے ساتھ عدالت متصور نہیں ہو سکتی اور اس کو قرآن نے بھی ظلم کہا ہے ”إن الشرك لظلم عظيم“ (سورہ لقمان: 13)، لہٰذا ظلم سے ظلمت عام ہوگی نہ کہ نورانیت، جب کہ اسلام آیا ہی ہے لوگوں کو ظلمت کدہ سے نکالنے کے لیے ”يخرجهم من الظلمات إلى النور“ (البقرۃ: 257)۔

(3) مرد ہونا: اسلام میں حکومت کے لیے رجولیت ضروری ہے، اس لیے کہ امارت اور امامت دونوں کی ذمہ داری حاکم پر ہوتی ہے، اور امارت کو ”امامتِ کبریٰ“ اور نماز کی امامت کو ”امامتِ صغریٰ“ کہا گیا ہے، جب ”نسوانیت“ بالاتفاق امامتِ صغریٰ کے لیے مانع ہے تو بدرجۂ اولی امامتِ کبریٰ کے لیے بھی مانع ہوگی اور روایت میں بھی اس کو”مانع“ قرار دیا گیا ہے، اللّٰہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا:”لن يفلح قوم ولّوا أمرهم إمراة“ (وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پائے گی جس نے اپنے اوپر کسی عورت کو حاکم بنا لیا ہو) [صحیح البخاری، باب کتاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الى کسری و قیصر، حدیث 4425 بحوالہ اسلام اور سیاسی نظریات ص: 210]

اور ایک موقع پر فرمایا:”إذا كانت أمراؤكم خياركم، وأغنيائكم سمحائكم، وأموركم شورى بينكم فظهر الأرض خير لكم من بطنها،  وإذا كانت أمراؤكم شراركم وأغنياؤكم بخلائكم وأموركم إلى نسائكم فبطن الأرض خير لكم من ظهرها“(جب تمھارے امیر تم میں سے بہترین لوگ ہوں، تمھارے مال دار لوگ سخی ہوں اور تمھارے معاملات، باہمی مشورے سے طے پاتے ہوں تو زمین کی پشت تمھارے لیے اس کے پیٹ سے بہتر ہے، اور جب تمھارے امیر لوگ تم میں سے بد ترین لوگ ہوں، تمھارے مال دار لوگ تم میں سے بخیل لوگ ہوں اور تمھارے معاملات، تمھاری عورتوں کے حوالے ہو جائیں تو زمین کا پیٹ تمھارے لیے زمین کی پشت سے بہتر ہے۔) [جامع الترمذی باب 78، حدیث 2266 بحوالۂ سابق]

(4) قریشی ہونا: اللّٰہ کے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لا يزال هذا الأمر في قريش ما بقى منهم اثنان“ (یہ معاملہ (خلافت) قریش میں رہے گا، جب تک ان میں دو انسان باقی ہوں۔) [صحیح بخاری، باب مناقب قریش، حدیث 251، بحوالۂ سابق] اور ایک دوسری جگہ فرمایا: ”إن هذا الأمر في قريش، لا يعاديهم أحد إلا كبّه الله على وجهه ما أقاموا الدين“ (یہ معاملہ قریش میں رہے گا، ان میں سے جو کوئی دشمنی کرے گا، اللّٰہ اس کو اوندھے منہ گرا دے گا) [صحیح بخاری، باب مناقب قریش، حدیث 3500، بحوالۂ سابق] اس باب میں تفصیل ہے، جس کا یہ مقالہ متحمل نہیں ہے۔

(5) علم: احکام اسلامیہ کی نوعیت و کیفیت سے آشنائی، اس کی مصلحتوں اور نزاکتوں سے ہمنوائی، حاکم کے لیے ضروری ہے اور یہ امر علوم اسلامیہ میں تعمق (گہرائی) کے بغیر حاصل نہیں ہوتا، اس لیے حاکم و امیر کے لیے انتظام و انصرام کی صلاحیت کے ساتھ علمی لیاقت بھی ضروری ہے؛ کیوں کہ اس مہتم بالشان کام کو”جَہالت“کے ساتھ کرنا ممکن نہیں ہے۔

(6) عادل ہونا: فیصلوں کا عدل پر مبنی ہونا فیصل کی عدالت پر موقوف ہے؛ اس لیے کہ ظالم کے ہاتھوں عدل و انصاف کا قیام نہیں ہوا کرتا اور عدل کا معیار اطاعت الہٰی ہے اور حکومت اسلامیہ سے مقصود عدل کا قیام ہے، جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”وإذا حكمتم بين الناس أن تحكموا بالعدل، فاحكم بين الناس بالحق۔ “[سورۂ ص: 26]

اسلامی سیاست کے انتخاب کا طریقہ

جب سے شمعِ رسالت غروب ہوئی ہے، تب سے ہی امیر کے انتخاب کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد ہو گئی ہے؛ اس لیے آقائے مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بابت کسی کی نامزدگی نہیں فرمائی؛ بلکہ اس معاملے کو مسلمانوں پر چھوڑ دیا، چناں چہ انتخاب، اہلِ رائے کے باہمی مشورے سے ہوگا (وأمرهم شورى بينهم [سورۂ شوری: 38])؛ لہٰذا بغیر مشاورت کے انتخاب کا اعتبار نہیں ہوگا اور رائے دہندگی کا اختیار، اہلِ شوریٰ کو ہوگا، اس میں ہر کس و ناکس، شمولیت کا مجاز نہیں ہوگا، جیسا کہ جمہوری طرزِ حکومت میں یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے کہ اس میں ہر طرح کے اشخاص کی رائے شمار کی جاتی ہے اور بالغ رائے دہی سے انتخاب ہوتا ہے، یہ طریقہ درست نہیں ہے، درست طریقہ وہی ہے جو دورِ خلافت میں جاری تھا۔

مجلسِ شوریٰ کی رکنیت

مجلسِ شوریٰ میں رکنیت کے مجاز وہی لوگ ہوں گے، جنھیں سیاسی بصیرت حاصل ہو اور جن کے اندر دیانت ہو؛ البتہ اس میں انتخاب، بالغ رائے دہی کی بنیاد پر ہوگا، اور جب اہل بصائر کو اپنے ملک کے سیاسی و تعلیمی شعور کے موافق اس سلسلے میں کوئی مناسب صورت سمجھ میں آ جائے تو اس کے مطابق انتخاب کیا جائے گا۔

خلافت ایک عظیم ذمہ داری ہے

خلافت و امارت ایک بڑی ذمہ داری ہے، نہ تو یہ کسی کی جاگیر ہے اور نہ ہی یہ کسی کا حق ہے، اسلام میں اس کی طمع کرنے سے ممانعت کی گئی ہے، ایک موقع پر حضرت ابوذر غفاریؓ نے حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم سے اس کی خواہش ظاہر کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”يا أبا ذر! إنك ضعيف، وإنها أمانة، ويوم القيامة خزي وندامة؛ إلا من أخذها بحقها وأدّى الذي عليه فيها“ (اے ابوذر! تم کمزور ہو، اور یہ (حکومت) ایک امانت ہے، اور قیامت کے دن رسوائی اور پشیمانی؛ الّا یہ کہ کوئی شخص برحق طریقے سے یہ امانت لے، اور اُس پر اُس کے جو حقوق عائد ہوتے ہیں، انھیں ٹھیک ادا کرے) [مسلم، باب کراہۃ الامامۃ بغیر ضرورۃ، حدیث 4683، بحوالہ اسلام اور سیاسی نظریات ص: 196]

یہ اسلام کا وہ پاکیزہ نظریہ ہے، جو بہت ساری خوبیوں کو نیست و نابود کرنے کا ذریعہ ہے، جب کہ موجودہ تصورِ جمہوریت میں سب سے بڑا نَقص یہی ہے کہ نمائندگی کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں، جس سے معاشرے کا نقصانِ عظیم ہوتا ہے، مثلاً ”فرقہ وارانہ تصادم و تنازعات، مستقل پولیٹیکل جنگ کا لامتناہی سلسلہ، دو فریقوں میں انتخابی کشمکش، فتنہ و فساد، مال و زار کا اتلاف اور ضیاع، نہایت بے دردی کے ساتھ ایک فریق کا دوسرے فریق کو ہدفِ ملامت بنانا۔

نہایت ذلیل حملے کرنا، سیم و زر کی تھیلیاں کھول دینا اور اس میں بعض دفعہ قتل و خوں ریزی تک پہنچ جانا“؛ یہ اور انھیں جیسے اسباب کی وجہ سے اسلام میں کسی شخص کا دعوائے حکومت کو لے کر اٹھنا بہت مستبعد امر ہے؛ چہ جائے کہ اس میں ترغیب و تحریص کے ہزار ہتھکنڈے اور پروپیگنڈے اختیار کیے جائیں، آپ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے بعد خلفائے اربعہ اور خلیفۂ ارشد حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا دور، اسلامی حکومت کے لیے رہنما اور آئیڈیل ہے، اس پورے عہد میں ایک بھی ایسی مثال نہیں دکھائی جا سکتی کہ کسی خلیفہ یا حکمراں کو ان کی خواہش کی بنیاد پر حکومت سونپ دی گئی ہو۔ (ماہنامہ دار العلوم، شمارہ: 10-11، جلد: 89، رمضان – شوال 1426ھ بمطابق اکتوبر- نومبر 2005ء)

لہٰذا ہم پر یہ بات واضح ہو گئی کہ اسلامی نظام کی دنیا کو ہر حال میں ضرورت ہے؛ تاکہ زندگی کے تمام شعبے مختل ہونے سے محفوظ رہیں اور جس کی وجہ سے روئے زمین جنت نظیر بنے اور وہ مثبت نتائج حاصل ہوں جو اسلامی نظام کا نصب العین ہے۔ و اللہ اعلم بالصواب و علمہ اتمّ و احکم۔

ماخذ و مراجع:

(1) اسلام اور سیاسی نظریات از مفتی محمد تقی عثمانی، ناشر: کتب خانہ نعیمیہ دیوبند، اپریل 2011ء۔

(2) دار العلوم دیوبند اور سیاست از مولانا محمد اسحاق باجوڑی، مکتبہ عمر فاروق کراچی، 2018ء۔

(3) اسلامی نظریۂ سیاست از مولانا حیدر زماں صدیقی، مکتبہ دین و دانش، مکنھیاں کنواں، بانکی پور، پٹنہ، 1947ء۔

(4) ماہنامہ دار العلوم دیوبند، اکتوبر – نومبر 2005ء۔

Recommended