Categories: فکر و نظر

ہندوستانی گاؤں: بھگوان بھروسے؟

<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<strong>ہندوستانی گاؤں: بھگوان بھروسے؟</strong></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<strong>ڈاکٹر ویدپرتاپ ویدک</strong></p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
ہمارے ٹی وی چینلز اور انگریزی اخبار ہمیں شہروں کی حالت زار بتا رہے ہیں لیکن ملک کے ایک یا دو بڑے قومی سطح کے ہندی اخبارات ہمیں دیہات کی خوف ناک صورت حال سے بھی آگاہ کر رہے ہیں۔ میں ان بہادر نمائندوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے صحافت کے مذہب پر واقعتا عمل کیا ہے۔ پہلی کہانی للت پور ضلع (یوپی) کے 13 دیہات کی ہے۔ ان دیہات کی آبادی 1 سے 7 ہزار تک ہے۔ ان تمام دیہاتوں میں لوگ بڑی تعداد میں بیمار ہو رہے ہیں۔ 500 مردوں کے ایک گاوں میں 400 مرد بیمار ہوگئے ہیں۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
بڑے گاوں میں پہلے ہفتے ،دو ہفتے میں ، ایک کی موت کی اطلاع مل جاتی تھی۔ اب وہاں ہر دن لاشوں کی لائن لگی رہتی ہے۔ اگر آپ لوگوں سے پوچھیں کہ اتنے لوگوں کوکیا ہوا؟ تو وہ کہتے ہیں کہ کھانسی بخار تھا۔ معلوم نہیں یہ کھانسی اور بخار ان کی جانیں کیوں لے رہے ہیں؟ ان سے پوچھیں کہ آپ جانچ کیوں نہیں کرواتے؟ تو وہ کہتے ہیں کہ یہاں گاوں میں آکرکون ڈاکٹر ان کو چیک کرے گا؟ ڈاکٹر شہر یا قصبہ میں 50-60 کلومیٹر دور بیٹھتا ہے۔ 50-60 کلومیٹر دور مریض کو کیسے لے جائیں؟ وہ سائیکل پر نہیں جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم گاوں میں رہ کرہی کھانسی اور بخار کا علاج کر رہے ہیں۔ یہ پوچھے جانے پر کہ علاج کس سے کرا رہے ہیں ، ان کا جواب یہ ہے کہ اضلاع کی او پی ڈی بند ہے۔ ہم یہاں پر گھومنے والے جھولاچھاپ ڈاکٹرکی گولیاںہی مریضوں کو دے رہے ہیں۔ وہ 10 روپے کی پیراسیٹامول 250 روپے میںدے رہے ہیں۔ کچھ گاﺅں کے سرپنچوں کا کہنا ہے کہ ہمارے گاوں میں کورونا-فورونا کا کیا کام ہے؟ لوگوں کو صرف کھانسی اور بخار ہوتا ہے۔ اگر یہ ایک آدمی کو ہوتا ہے تو ، گھر میں ہر ایک کو ہوجاتا ہے۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
جب دیہاتوں میں اتنی بے شرمی کے ساتھ سردی اور بخار کی دوائیوں کی بلیک مارکیٹنگ ہو رہی ہے ، تب ہمارے دیہی بھائی کورونا کے معائنے اور علاج کے لئے ہزاروں اور لاکھوں روپے کہاں سے لائیں؟ ایسا لگتا ہے کہ اس عہد میں ہماری حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کوبے حسی کادورہ پڑگیا ہے۔ عوام کی لاپرواہی اتنی زیادہ ہے کہ سینکڑوں انتخابی کارکن اتر پردیش کے پنچایت انتخابات میں کورونا کا شکار ہوگئے ، لیکن عوام نے اس سے سبق حاصل نہیں کیا۔ راجستھان کے سیکر ضلع کے کھیوڑا گاوں میں بھی ایسا ہی معاملہ سامنے آیا۔</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
<span dir="LTR">21 </span>اپریل کو ایک متاثرہ کی نعش گجرات سے لائی گئی تھی۔ اس کی تدفین کے لیے 100 افراد پہنچے تھے۔ انہوں نے کوئی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی۔ ان میں سے 21 فوت ہوگئے۔ اتراکھنڈ اور اترپردیش کے کئی دوسرے دیہاتوں میں بھی ایسی صورت حال پائی جارہی ہے لیکن اس کا صحیح طور پر پتہ نہیں چل سکا ہے۔ صرف حکومتوں کے بھروسے ملک کے دیہات کو کورونا سے نہیں بچایا جاسکتا۔ نہ ہی وہ بھگوان بھروسے چھوڑے جا سکتے ہیں۔ اگر اس وقت ملک کی ثقافتی ، سیاسی ، سماجی ، مذہبی اور نسلی تنظیمیں پہل نہیں کریں گی تو وہ کب کریں گی؟</p>
<p dir="RTL" style="text-align: justify;">
(مضمون نگار مشہور صحافی اور کالم نگار ہیں)</p>

آئی این بیورو

Recent Posts

رجنی کانت کی فلم ’جیلر‘ پر شائقین کا ردعمل

رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…

1 year ago

کشمیر میں’میری ماٹی، میرا دیش‘مہم کے تحت متعدد تقریبات منعقد

مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…

1 year ago

یُگ پریورتن: جموں و کشمیر کا تبدیلی کا سفر

جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…

1 year ago

بھارت کے نقشے کی تصویر کا قالین بُننے والا کشمیری قالین باف محمد مقبول ڈار سے ملیں

شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…

1 year ago

زعفران کی آسمان چھوتی قیمت کشمیر کے کسانوں کے چہروں پر لے آئی مسکراہٹ

زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…

1 year ago

لال چوک پر تجدید شدہ کلاک ٹاور سری نگر کے قلب میں لندن کی جھلک کررہا ہے پیش

سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…

1 year ago