مضمون نگار:ثاقب سلیم
اردو ترجمہ: انڈیا نیرٹیو
اسلام گائے کی قربانی پر اصرار نہیں کرتاہے۔ مسلمانوں کو ہندوؤں کے مذہبی جذبات کا احترام کرتے ہوئے اسے ترک کر دینا چاہیے۔جو مسلمان صرف ہندوؤں کے خلاف گائے کی قربانی دیتے ہیں وہ اسلام کے ایک انتہائی مقدس تصور کی خلاف ورزی کر رہے ہیں جو دوسروں کے جذبات کا احترام کرنے کا حکم دیتا ہے۔ گورکھپور کے حکیم عبدالکریم خان نے 1912 میں عید الاضحی (بقرہ عید) پر ایودھیا میں فسادات پھوٹنے کے بعد ایک اردو روزنامہ ’’مشرق ‘‘میں لکھاتھاکہ’’گائے ہندوؤں کے لیے مقدس ہے اور مسلمانوں نے صدیوں سے خود کو گائے ذبح کرنے سے روک رکھا تھا۔ علمائے کرام کے ساتھ ساتھ مسلم حکمرانوں کی اکثریت نے بھی عیدالاضحی کے موقع پر گائے کے ذبیحہ پر مکمل یا جزوی پابندی عائد کر دی تھی۔ مسلمان کھانے کے لیے مٹن اور دوسرے جانور استعمال کرتے تھے لیکن گائے کو نہیں چھوتے تھے جن کی ہندو پوجا کرتے ہیں‘‘۔
برطانوی دور میں حالات بدل گئے کیوں کہ یورپیوں نے گائے کے ذبیحہ کو فروغ دیا تاکہ گائے کے گوشت کی اپنی مانگ کو پورا کر سکے،جو ان کے لیے ایک اہم غذا تھی۔ انگریزوں یا ان کے وفاداروں کی مالی امداد کرنے والے مسلمان گائے کو مارنے، ذبح کرنے پر مصر رہے ہوں گے تاہم علمائے کرام سمیت زیادہ تر پڑھے لکھے مسلمانوں نے اس عمل کو درست نہیں کہا اوراس سے اجتناب برتنے پر زور دیتے رہے۔
سن1910 میں عیدالاضحی ٰکے موقع پر کولکتہ میں ہنداور مسلم فسادات پھوٹ پڑے۔ کولکتہ کے ایک اردو روزنامہ ’سورۃ مستقیم‘نے مسلمانوں پر زور دیا کہ وہ گائے کے ذبیحہ میں ملوث نہ ہوں کیونکہ اس سے صرف انگریزوں کی مدد ہوگی۔ اخبار کے ایڈیٹر نے لکھا تھاکہ’’انگریز اس بات سے خوفزدہ ہیں کہ مسلمان بنگال میں ہندوؤں کی طرف سے شروع کی گئی قوم پرست تحریک میں کہیں شامل نہ ہو جائیں۔ اس طرح دونوں برادریوں کے درمیان دشمنی کے بیج بودیا‘‘۔ اداریہ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ’’ گائے کے ذبیحہ میں ملوث مسلمان برطانوی کٹھ پتلی ہیں‘‘۔
ہندوؤں نے بھی انگریزوں کے ان شیطانی عزائم کو سمجھ لیا اور مسلمانوں کو ان منصوبوں کی مخالفت کرنے کی ترغیب دی۔ 1912 میں ناگپور کے ایک ہندی اخبار ’’مارواڑی ‘‘نے ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں گائے کو مارنے سے باز رہنے پر مسلم کمیونٹی کا شکریہ ادا کیا ۔ مضمون میں امید ظاہر کی گئی تھی کہ پورے ہندوستان میں اس ماڈل کی پیروی کی جائے گی۔
جنوبی ہندوستان کے ایک انگریزی روزنامہ ’’انڈین پیٹریاٹ ‘‘نے گائے کے ذبیحہ سے پرہیز کرنے پر مسلمانوں کی تعریف کی تھی۔ اس نے امید ظاہر کی کہ تعلیم یافتہ مسلمانوں کی کوششیں ناخواندہ مسلمانوں تک بھی پہنچیں گی۔
مولوی اکبر خان اور اکرم خان نے کلکتہ کے ایک روزنامہ’’ محمدی‘‘ کے اپنے اداریے میں مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ 1912 کی عید الاضحیٰ سے پہلے گائے کے ذبیحہ سے باز رہیں۔ انھوں نے لکھاتھا کہ ’’مسلمانوں کو گائے ذبح کرکے اپنے ہندو پڑوسیوں کے جذبات کو مجروح نہیں کرنا چاہیے‘‘۔ انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ’’ قرآن نے مسلمانوں کو سکھایا کہ وہ دوسرے مذاہب کے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہ پہنچائیں اور گائے کا ذبیحہ اسلام کا حصہ نہیں ہے‘‘۔
بنگالی اخبار’’ ڈیلی بھارت مترا ‘‘نے بھی 1912 میں عید الاضحیٰ سے قبل گائے کے ذبیحہ پر پابندی عائد کرنے پر مرشد آباد کے نواب سے اظہار تشکر کرنے کے لیے ایک مضمون شائع کیاتھا۔
یہ مثالیں ظاہر کرتی ہیں کہ تعلیم یافتہ اور استعمار مخالف مسلمانوں نے ہمیشہ گائے کے ذبیحہ کی مخالفت کی ہے۔ پھر یہ ایک متنازعہ مسئلہ کیوں دن بہ دن بنتا جا رہا ہے؟ حالاں کہ گائے کی ذبیحہ سے انگریزوں نے خود ایک بنیادی خوراک حاصل کی تھی۔ 1920 کی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق ’’برطانوی فوج اس رجحان اور گائے ذبیحہ پر ہندو مسلم کے درمیان مفاہمت سے کافی پریشان تھی کیونکہ ہندوستانی انہیں چھاؤنیوں میں گائے ذبح کرنے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ یہاں تک کہ مسلم نواب بھی اپنے دائرہ اختیار میں اس کی اجازت نہیں دیتے تھے۔
علمائے کرام نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا ہے کہ دوسروں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا اس وقت تک جائز نہیں جب تک کہ یہ اسلام کے کسی ستون کے خلاف نہ ہو اور گائے کا ذبیحہ کوئی فرض یا واجب عمل تو ہےنہیں ،لہذا ہندوستانی مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ گائے کی ذبیحہ سے احتراز کرتے ہوئے مادروطن میں موجود اپنے ہندو بھائیوں کا خیال رکھیں اور بھائی چارے کی روایت کو مستحکم کرنے میں اپنا تعاون پیش کریں۔