Urdu News

دینی وملی تنظیموں اوراہل علم کی تنقیص مسلم سماج کارستا ہوا ناسور

حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی

حضرت مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی صاحب دامت برکاتہم

مسلم عوام کوعلماء اور داعیان دین سے کاٹنااوران دونوں طبقات کے درمیان خلیج پیدا کرنادشمنان دین کاپرانا ایجنڈا ہے اوروہ اپنے اس ایجنڈے پر بڑی محنت، اور کدوکاوش کے ساتھ عمل پیرا ہیں، ان پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ جب تک عوام کارشتہ علماء سے کمزور نہیں ہو گا اوران دونوں طبقات کے درمیان فاصلے پیدانہیں کیے جائیں گے، اس وقت تک اسلام اورمسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کوششیں کامیاب نہیں ہوں گی،اور دین کے نام پر پھیلائے جانے والے فتنے فروغ نہیں پاسکیں گے، دشمنان دین کی فکر، ان کی سونچ ان کاطرز عمل اوران کی تگ ودو تو ہے ہی نا پسندیدہ مگر اسے کیا کہیے کہ خودمسلمانوں میں ایک ایسا طبقہ پیداہوگیاہے جو نادانستگی میں اسی راہ کاراہی اوراسی دشت کاسیاح بنتاجارہاہے۔ ایک ایسا طبقہ جس کی زبان سے ان کے اپنے اکابرعلماء اوردین و ملت کی بیش بہاراو ر بلند قامت شخصیات کی عزت محفوظ نہیں، اور جن کے قلم اپنے ہی بڑوں کے خلاف شمشیر برہنہ بنے ہوئے ہیں، سوشل میڈیالکھنے والے کچھ ایسے جیالے ہیں جو ”صحت مند تنقید“ کے نا م پر کار گزار علماء سے نفرت کا زہر پھیلارہے ہیں اور عوام کے ذہنوں کو خدام دین کے سلسلے میں برگشتہ کرنے کی مہم چلارہے ہیں، بظاہر ان کا سراپا عالمانہ ہے اوران کی زبان پر دین و ملت کی خدمت کے حسین نعرے، لیکن خوشنما نعروں اور دعوؤں کے پیچھے جو اصل چھپی ہوئی ہے، وہ کچھ اور ہر عام مسلمانوں کو علماء قائدین سے بد ظن کرنا، ملت کے خدمت گاراداروں پر کیچڑ اچھالنا، خدام دین کی نیتوں اور ان کی خدمات پر سوالیہ نشان لگانا، اوراہل اللہ اور بزرگان دین پر الزام تراشی کرنا، خدمت دین کا کون سا شعبہ ہے؟ کیااس سے ملت کا بھلاہو گا یا ملت کو سخت نقصان پہونچے گا؟ اس پر غورکرنابہت ضروری ہے۔

دین متین کی خدمت کرنے والے علماء چراغ دل جلا کرشاہراہ خدمت کوروشن کرنے والے اکابر، اپنے آشیانوں کو پھونک کر زمانے کو روشنی بخشنے والے قائدین نہ تو معصوم ہیں اور نہ پیغمبر کی طرح لائق اتباع، وہ بھی انسان ہیں، خطاکرنے والے، نفس وشیطان اورماحول کے فتنوں سے متاثر ہو جانے والے، کبھی ان کے قدم بھی غلط سمت میں اٹھ جاتے ہیں، کبھی رائے یا عمل کی غلطی ان سے بھی ہو جاتی ہے، لیکن کیا کسی ایک غلطی کی وجہ سے ساری زندگی کی خدمات کو نظر انداز کر دیاجائے گا؟ کیا رائے یاعمل کی خطا کے سبب ان کی تمام قربانیوں کو بھلادیا جائے گا؟ کیا کسی ایک غلطی کو بنیاد بنا کر ان کی کردارکشی کی مہم چلائی جائے گی؟ کانوں کو سننے کے لیے یہ بات بہت بھلی لگتی ہے کہ زندہ قوموں اورملتوں میں ”صحت مند تنقید“ کا سلسلہ جاری رہناچاہیے۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ”صحت مند تنقید“کے نام پر الزامات کی بوچھاراور کسی مفروضہ غلطی پر سنان لسان و قلم کاوار جائز قرار دیا جا سکتاہے؟ عجب بات ہے کہ تنقید کے نام پر تنقیص اورسوال کے عنوان سے تذلیل و توہین کا بازار گرم ہے اوراس کھلی ہوئی بے دینی پریہ کہ دینداری کاغلاف چڑھادیاجاتاہے کہ ”ہماری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ ایک ادنیٰ مسلمان امیرالمؤمنین حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کوبرسر منبر ٹوکتاہے اور ان کااحتساب کرتا ہے“کوئی شبہ نہیں کہ یہ تاریخ اسلامی کا زرین واقعہ ہے،اور بعدوالوں کے لیے مشعل راہ اور مینارہ نور!،مگر اس پر غور کیوں نہیں کیا جاتا کہ حضرت عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ کا ایک ایسا عمل جو بظاہر عدل کے خلاف معلوم ہورہاتھا، پوچھنے والوں نے خود ان سے ا س عمل کے بارے میں سوال کیا اورجب جواب مل گیا توفوراً پکار اٹھا نسمع ُو نطیع (ہم سنیں گے)کیااس میں اس بات کی رہنمائی نہیں ہے کہ جب کسی معاملے میں شبہ پیدا ہوجائے تو خودصاحب معاملہ سے پوچھ لیا جائے اور اگر جواب معقول اور اطمینان بخش ہوتو فوری طورپر اپنا شبہ دور کر لیاجائے، اور صاحب معاملہ کے شخصی احترام اور ان سے محبت و عقیدت میں کوئی کمی نہ آنے دی جائے۔ اسی واقعہ سے استدلال کر کے ملت کے خدمت گزار اداروں اور دین متین کے بے لوث سپاہیوں کے خلاف زہر کی کاشت اور نفرت کا بیوپار کرنے والے ”نام نہاداسلامی اسکالرس“ غورفرما لیں کہ حضرت عمرسے سوال کرنے والے شخص اورخود ان کے طرز عمل میں کتنافرق ہے؟ وہاں صاحب معاملہ سے سوال کیا جا رہاہے اور یہاں صاحب معاملہ فرشتوں کو بھی خبر نہیں اور اس کے خلاف اخبارات کے صفحے کے صفحے سیاہ کیے جارہے ہیں، سوشل میڈیا پر زبان وقلم کازوردکھایا جا رہاہے، کسی نے ذاتی اغراض و مفادات یاحسداوربغض کی بناء پر کسی صاحب علم، صاحب بصیرت وفراست عالم دین پرایسے الفاظ پر مشتمل مضمون لکھا  جسے پڑھ کر ذوق سلیم کواُبکائی آنے لگے اور ”صحت مندتنقید کے علمبرداروں“ اور ”نام نہاد اسلامی اسکالرس“ نے اسے سوشل میڈیا کے مختلف اکاؤنٹس پر بلاتحقیق نشر کرکے ”ثواب دارین“ حاصل کرنا شروع کر دیا، سونچیے اوردل پر ہاتھ رکھ کر سونچئے کیا یہی دین کی تعلیم ہے؟ کیا اسی کا نام دیانت ہے؟ کیا یہی طرز عمل دین وملت کے حق میں مفید ہے؟

قرآن وحدیث میں جا بجا احترام مسلم کی تعلیم دی گئی ہے، کینہ کپٹ، بغض و حسد، ریا کاری و منافقت، عیب جوئی و بدگوئی سے باز رہنے کی تلقین کی گئی ہے، ظن و تخمین کے گھوڑے دوڑانا،رائی کا پربت بنانا، مسلمان کی عزت و ناموس سے کھلواڑ کرنا، یہ سب ازروئے قرآن وسنت منع ہے، مسلمان کی عزت و ناموس اللہ پاک کی نگاہ میں اتنی عزیز ہے کہ اس کی بے حرمتی کو سب سے بڑا سود قرارد یا گیاہے۔ (اِنَّ اَرْبَی الرِّبَا اَلا ستطالَۃُ فِیْ عِرْضِ الْمُؤمِنِ)اور اس عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے چاروں طرف سے حصار کیے گئے کہ کسی مسلمان کے بارے میں بری بات نہ سونچی جائے، (ظَنُّو ابِا لمُؤمِنِیْن۔ خَیراً) کسی کامذاق نہ اڑایا جائے۔ (لا یسخرو قومٌ مِّن ْ قَومٍ عَسیٰ اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیراً مِنھُمْ) کسی کو برے لقب سے یاد نہ کیا جائے (لا تنا بزُوا بِالْاَلْقَاب) کسی پہ تہمت نہ لگائی جائے، کسی کوعار نہ دلائی جائے۔ (لَا تُعَیّرُ وْھُم) اور نہ کسی مسلمان کو اپنے طرز و انداز سے تکلیف پہنچائی جائے۔ (لَا تُوْا ذُواالمُسْلِمِیْنَ) اب ان تمام تعلیمات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صرف اپنی انانیت کی بنیادپر، یاحسدوبغض کے سفلی جذبات کی تسکین کے لیے اگر کسی مسلمان کی عزت سے کھلواڑ کیاجاتاہے تو یہ دین نہیں بے دینی ہے، یہ اخلاق نہیں کھلی ہوئی بد اخلاقی ہے، یہ شرافت نہیں دناء ت ہے، یہ دین کی خدمت نہیں دنیاوآخرت کی بربادی کاسودا ہے، حضور اکرم ﷺ جب معراج کے سفر پرتشریف لے گئے تو آپ کاگزر ایسے لوگوں پر ہوا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے ناخنوں سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے حضور اکرم ﷺ نے حضرت جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ حضرت جبعرئیل نے عرض کیا کہ یہ لوگ (دنیا میں) دوسروں کی آبرو ریزی کرتے تھے، اور ان کے عیب تلاش کر کے لوگوں کے سامنے پیش کیاکرتے تھے، یہ تو آخرت کی سزا ہے،دنیا کی سزا  کے بارے میں ترمذی شریف کی ایک حدیث میں نقل کرتے ہیں کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے عیب کے پیچھے نہ لوگ، اس لیے کہ جو اپنے مسلمان بھائی کے عیب کے پیچھے لگتا ہے،اللہ تعالیٰ اس کے عیب کے پیچھے لگ جاتا، اور جس کے عیب کے پیچھے اللہ تعالیٰ لگ جاتاہے اسے گھر بیٹھے ذلیل ورسواکر دیتاہے۔ (ترمذی شریف) عیب تلاش کرنے  والے کے لیے تباہی اوربربادی کا ذکر خودقرآن پاک میں ہے، خرابی او ر تباہی ہے عیب ٹٹولنے والے چغلی کھانے والے کے لیے (وَیْلُ لِّکُلِ ھُمَزَۃِ لُّمَز)

قرآن پاک میں حضرات صحابہ کی شان میں یہ بات ذکر کی گئی ہے کہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے نر م اور کافروں کے لیے بڑے سخت ہیں (اَشِدَّاءُ عَلَی الْکُفَّارِ رُحَماءُ بَیْنَھُمْ) یہ صرف صحابہ کی تعریف نہیں ہے بلکہ اہل ایمان کے لیے رہنما اصول ہے کہ ان کی سختی کافروں کے لیے ہو اورآپس میں ایک دوسرے سے ان کا رشتہ اخوت، مروت شرافت اوررحم دلی کا ہو، وہ احترام اوراعتراف کی راہ پر چلیں نہ کہ تردید و تنقیص کے راستے پر، وہ دوسروں کو عزت دینا سیکھیں نہ کہ دوسروں کی آبروریزی اورکردارکشی کریں، ان کا مزاج عفو درگذر کا ہو، عار دلانے اور شکست حوصلہ کرنے کا نہیں، انسانیت تویہی ہے کہ انسان کے اندر دوسروں کااحترام، اور ان کی خوبیوں اور خدمات کے اعتراف کاجذبہ ہو، اوروہ دوسروں کے لیے وہی چیز پسند کرے جو خود اپنے لیے پسند کرتاہے   ؎

باخبر شواز مقام آدمی

آدمیت احترام آدمی

 (انسان کے مقام سے آشنا ہو جاؤ، انسانیت یہ ہے کہ انسان کااحترام کیا جائے)

زبان و قلم کی صلاحیت خدا تعالیٰ کی نعمت ہے،بیش قیمت بھی بے بہا بھی! ان نعمتوں کااستعمال خیر کے کاموں میں ہوتو نورٌ علی نور بلکہ مجموعہئ انوار اوراگر زبان و قلم کی نعمتوں کو خواہشات نفس کے تابع بنادیاگیا اور تخرب و تعصب کی راہ اپنائی گئی تو پھر یہ نعمتیں وبال جان، وجہ زوال و خسران! جنہیں یہ نعمت ملی ہے وہ احتساب کرتے رہیں کہ جادہئ حق پر ان کے قدم بڑھ رہے ہیں یا شرپر ان کی منزل فانی دنیا ہے یالازوال آخرت؟ ان کا سفر خدمت ربانیت و للّٰہیت کے زیر سایہ انجام پارہاہے یا اغراض و سفلی جذبات کی سیاہ چادر اس پرتنی ہوئی ہے؟ وہ رحمٰن کے بندے بن کر جی رہے ہیں یا شیطان کے ہر کارے اور نمائندے؟زبان وقلم کی صلاحیت کامل جانا کمال نہیں ہے ان دونوں صلاحیتوں کا محتاط، متوازن اور مثبت استعمال کمال ہے، ان دونوں ہتھیاروں سے لیس ہو کر جب انسان قدم آگے بڑھاتا ہے تو با تفِ غیبی کی ندا اس کے کانوں میں آتی ہے۔

نہ سنو برا کہے کوئی

نہ کہو برا کرے کوئی

روک لو گر غلط چلے کوئی

بخش دو گر خطا کرے کوئی

(مضمون نگارمرکز تحفظ اسلام ہند کے سرپرست اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری ہیں!)

Recommended