Urdu News

مولوی نذیر احمد کی ناول نگاری

شمس العلماء،خان بہادر ،حافظ ومولوی ڈپٹی نذیر احمد

ابوالبرکات شاذ قاسمی

 تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن جگیراہاں بتیا

شمس العلماء،خان بہادر ،حافظ ومولوی ڈپٹی نذیر احمد (1831/1836=1912)6دسمبر1831یا 1836کو موضع ریہر تحصیل نگینہ ضلع بجنور یوپی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم والد صاحب سے حاصل کی اس کے بعد دلِّی چلے آئے اور مولوی عبد الخالق کے شاگرد ہوئے دلی کالج میں داخلہ لیا اور اس وقت کے مشہور عربی داں مولوی مملوک علی سے عربی زبان وادب سیکھا 1854ء میں ایک مدرسے کے ٹیچر ہوئے نظام حیدرآباد کی دعوت پر حیدرآباد تشریف لے گئے سالار جنگ کی وفات کے بعد واپس دہلی آئے اور دلی ہی میں 3مئی 1912ء کو داعی اجل کو لبیک کہا ۔

ڈپٹی نذیر احمد کو اردو کا پہلا ناول نگار مانا جاتا ہے مگر اس سلسلے میں ناقدین کے درمیاں قدرے اختلاف پایا جاتا ہے ڈاکٹر محمود الہی اپنی تحقیق کے موافق ڈپٹی نذیر احمد کو اردو کا پہلا ناول نگار مانتے ہیں اسی بات کی تائید مشہور ناقد ڈاکٹر اعجاز علی ارشد ان الفاظ میں کرتے ہیں”ان کو اردو کا پہلا ناول نگار ماننا ہی پڑے گاجبکہ دیگر ناقدیں اسے تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں مگر مشہور ومقبول قولِ اوَّل ہی ہے۔

ڈپٹی نذیر احمد نے جو ناولیں ہمارے بیچ چھوڑیں ہیں وہ اردو کے لئے سرمایہ افتخار کی حیثیت رکھتی ہیں مرأہ العروس،بنات النعس،توبہ النصوح،ابن الوقت،فسانۀ مبتلأ رویائے صادقہ اور ایامیٰ ان کی مشہور ناولیں ہیں۔

ڈپٹی نذیر احمد کا پہلا ناول “مرأہ العروس”(1868)ہے یہ دراصل انہوں نے اپنی بڑی لڑکی کی تعلیم و دینی تربیت کے لیے بطور نصاب کے مرتب کیا تھا اس کی ترتیب و شکل یوں تھی کہ دو چار صفحہ لکھ کر دے دیتے تھے اس کی تعلیم پوری ہوجاتی تو پھر اگلے دوچار صفحہ لکھتے اس ناول میں کردار کے طور پر اصغری و اکبری دو بہنیں ہیں اکبری ضدِّی بے ادب،اور بے سلیقہ لڑکی ہے جبکہ اصغری ٹھیک اس کے برعکس ہے چونکہ بچیوں کی تعلیم و تربیت کی خاطر اس کے کردار و مضمون گڑھے گئے ہیں اس لئے یہ ایک اصلاحی ناول ہے

“بنات النعش”بھی ان کی ایک اہم تصنیف ہے اس کا موضوع بھی اخلاق و تعلیم ہے اس میں حسن آراء کا کردار بھی اکبری کی طرح خودسر و خودبیں بدزبان اور پھوہڑ لڑکی کا ہے مگر کچھ آگے چل کر اس میں تبدیلی آجاتی ہے اس کا کایا پلٹ جاتا ہے اور وہ دوسروں کو تعلیم دینے لگتی ہے بچیوں کو جغرافیہ اور امور خانہ داری سکھاتی ہے ۔”توبۀالنصوح “ان کا تیسرا ناول ہے یہ ناول پلاٹ،کردار،مکالمہ اور زبان و بیان ہر لحاظ سے بہت ہی دلچسپ اور فنی مہارتوں کی تکمیل پر مبنی ہے اس کا موضوع بھی تربیتِ اولادہی ہے

فسانۀ عجائب ڈپٹی نذیر احمد کا چوتھا ناول ہے اس کا ایک کردار محصنات ہے اس ناول میں انہوں نے اپنا نقطہ نظر واضح طور پر بیان کیا ہے انہون نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ایک سے زائد شادیاں ہرلحاظ سے غلط ہے اس سے اولاد کی تربیت کرنے میں بھی دشواریاں ہوتی ہیں ہمیشہ ذہنی تناؤ اور جھگڑوں کی وجہ سے آدمی بدمزاج ہو جاتا ہےان کی پانچویں ناول کے طور پر “ابن الوقت”کو جانا جاتا ہے ابن الوقت ڈپٹی نذیر احمد کی ناولوں میں سب سے مقبول ناول ہے اسے ایک معاشرتی ناول کے طور پر بھی جانا جاتا ہے جو لوگوں میں آداب معاشرت سکھاتی ہے اس میں یہ بتانےکی کوشش کی گئی ہے کہ جو لوگ اپنی تہذیب پر قناعت نہی کرتے دوسروں کی پیروی کرتے ہیں وہ نہ ادھر کے ہوتے ہیں نہ ادھر کےایک نہ ایک دن ان کو شرمندگی کا سامنا کرنا ہوتا ہے تو وہی ان کی ناول “ایامیٰ” بیواؤں کی حالت زار اور عورتوں کی نکاح ثانی پر زور دیتا ہے “رویائے صادقہ” مولوی نذیر احمد کا آخری ناول ہے جس  میں صادقہ”مرکزی کردار ہے یہ بھی ایک اصلاحی ناول ہے

مجموعی طور پر ان کی تمام تر ناولوں کا پلاٹ خوب ہے مگر شروع دور کے ناولوں کا درجہ کم تر ہے چوں کہ ان کا موضوع اصلاح ہے اس لئے اس میں پلاٹ نگاری پر زیادہ توجہ نہی دی گئی ہے البتہ ان کا تیسرا ناول  “توبہ النصوح” میں فنی گرفت صاف نطر آتی ہے “ابن الوقت” کا کردار زیادہ پیچیدہ اور پر اسرار ہے وہ اپنے مقصد کو کبھی بھی اپنے گرفت سے باہر نہی ہونے دیتے وہ پلاٹ و کردار دونوں کو قابو میں رکھتے ہیں حسن ترتیب اور پلاٹ کا باریکی کے ساتھ استعمال ان کے ناولوں میں جان پیدا کرتا ہے نذیر احمد کے ناولوں کی ایک بڑی خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے کرداروں کی تخلیق میں بڑی فنکاری کا مظاھرہ کیا ہے ان کے زیادہ تر کردار سادہ اور سپاٹ ہیں یا تو خوبیوں کا مجسمہ یا تو عیبوں کا پلندہ اسی طرح انہوں نے مکالمے کو بھی نہایت ہی خوش اسلوبی سے قاری کے سامنے رکھا ہے ماحول مزاج اور کردار کے عین موافق مکالمے ان کی ناولوں کو مثالی بناتے ہیں خاص طور سے نسوانی کردار کی کارکردگی اور مکالمے انوکھے اور بڑے باریکی سے گڑھے گئے ہیں سماج و معاشرہ کی تصویر پیش کرنے والی یا گھریلو زندگی میں ایک عورت کے جذبات کی ترجمانی کرنے والی ان کی ناولوں کو دیکھتے ہوئے صاف طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ان کی ناولیں تانیثیت کا منشور اور معاشرتی اخلاق،کردار، رواداری اور مجموعی آداب کو تشکیل دینے والی ہیں۔

abulbarkat98@gmail.com

Recommended