Urdu News

خاک میں ملتا ہندوستان کا وقار، ذمہ دار کون؟

ہندوستان کا وقار

ڈاکٹر جہاں گیر حسن

آج کل رمضان کا مبارک مہینہ چل رہا ہے۔ یہ مہینہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے بلکہ پوری انسانی برادری کے لیے امن، چین اور اتحاد و یک جہتی اور ایک دوسرے کے دکھ-درد میں شریک رہنے کا پیغام لے کر آتا ہے۔

نیز یہ مہینہ ہر ایک بندے کو اس کے خالق و مالک اللہ رب العزت سے جوڑنے کا کام کرتا ہے تو دوسری طرف آپسی بھائی چارے اور انسانی ہمدردی کی ترغیب و تحریک بھی دیتا ہے۔

اس مہینے میں جہاں عبادت و ریاضت اور ذکر و اذکار کی مدد سے تقوی و طہارت اور قرب ربانی کی لذت و چاشنی حاصل کی جاتی ہے تو وہیں رمضان کے ایام میں اخلاقیات کے مقام پر فائز ہونے کا موقع ملتا ہے۔ کیوں کہ اس ماہ میں بالخصوص فحش گوئی، بدگوئی، چغلی و غیبت اور جھگڑا و فساد جیسے برے اعمال سے دوری اختیار کرنے پر خاصہ زور دیا گیا ہے۔

یہی سبب ہے کہ خواہ مسلم قوم ہوں یا غیر مسلم قوم، سبھی بندگان خدا رمضان و روزہ کا احترام کرتے ہیں اور اتحاد و یک جہتی کے ساتھ امن و آشتی کا بہترین نمونہ پیش کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے مذاہب سے متعلق اپنی اپنی طرف سے خیرسگالی بھرے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔

چناں چہ اس کی ایک بہترین مثال آج کل امریکہ کے نیویارک ٹائمز اسکوائر کے مقام پر دیکھنے کو مل رہی ہے۔ ہندوستان کے مشہور و معروف ٹی وی اینکر سدھیر چودھری اپنے ایک ٹی وی شو میں بیان کرتے ہیں کہ “ویسے آج جب ہم آپ کو امریکہ کی بات بتا ہی رہے ہیں تو وہاں کی نئی تصویریں بھی ہم آپ کو دکھا دیتے ہیں کہ کیسے وہاں رمضان کے موقع پر دوپہر اور شام کے وقت سڑکوں پر نمازیں بھی پڑھی جارہی ہیں۔

اور شام کی نماز سے پہلے وہاں ٹائم اسکوائر پر ہی افطاری پروگرام کا اہتمام ہورہا ہے اور یہ سب کچھ محض ایک دن کے لیے نہیں ہے بلکہ رمضان کے پورے مہینے نیو یارک بمقام ٹائم اسکوائر اسی طرح سڑکوں پر روز نمازیں پڑھی جاتی رہیں گی جس میں ہر روز سیکڑوں لوگ حصہ لیتے ہیں۔

سب سے بڑی بات یہ کہ وہاں پر لوگوں کی حفاظت و نگرانی کے لیے باقاعدہ پولیس کی مستعدی اور تعیناتی رہتی ہے۔ تو ہم آپ سب کی طرف سے انھیں مبارکباد دیتے ہیں۔”مزید آگے کہتے ہیں کہ “دیکھیے امریکا کی جو بیوٹی ہے اور وہاں پر جمہوری نظام کی جو خوب صورتی ہے یہی ہے کہ امریکا مذہب کے سلسلے میں ایک غیر جانبدار ملک ہے (کہ وہاں ہر مذہب کے جذبات کا خیال رکھا جاتا ہے اور سب کو آزادی کے ساتھ ان کے مذہب پر عمل کرنے کی اجازت دی جاتی ہے)۔

نیو یارک میں جہاں لوگ نماز ادا کررہے ہیں اسے دیکھ کر آپ کو ایسا لگےگا کہ یہ کوئی مسجد ہے لیکن ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ٹائم اسکوائر ہے جہاں لوگ مل کر ایک ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔”واقعی امریکا کا یہ قدم انتہائی قابل تعریف اور قابل قدر ہے اور پوری دینا کے لیے ایک پیغام ہے اور اس طرح کے مناظر دنیا کی اسکرین پر مزید پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

لیکن اس کے برخلاف جب ہم اپنے ملک اور گنگا جمنی تہذیب کے سنگم کو دیکھتے ہیں تو بڑی بےچینی ہوتی ہے اور دل میں ایک ہوک سی اٹھتی ہے کہ ہمارا ملک جو ہمیشہ سے عالمی پیمانے پر امن و آشتی کا پیغام دیتا رہا ہے اور جہاں مختلف مذاہب و مکاتب کے درمیان قائم اتحاد و یگانگت کی مثالیں پیش کی جاتی رہی ہیں۔

آج کل اسی ملک میں مذہبی تعصب اپنے عروج پر ہے اور تعصب کا پودا نہ صرف پنپ رہا ہے بلکہ تناور درخت کی صورت اختیار کرتا جارہا ہے اور نتیجے کے طور پر عالمی اور انسانی برادری کے کینویس پر ہمارے ملک و معاشرے کا خوش کن ماحول، امن و آشتی اور پیار محبت والی شناخت دم توڑتی ہوئی نظر آرہی ہے۔

پچھلے دنوں ملک کے بعض علاقوں میں رمضان اور نماز تراویح کو لے کر جس طرح سے حادثے رونما ہوئے وہ ہم سب ہندوستانیوں کے لیے انتہائی شرمناک ہے اور سماجی و سیاسی اعتبار سے ہمارے ملک کے حق میں ناقابل قبول واقعہ ہے کہ اس سے نہ صرف ملک و معاشرے کا نظام درہم برہم ہوتا ہے بلکہ اس کے سبب معاشیات و اقتصادیات کے میدان میں بھی ہمارا پچھڑتا ہے اور دیگر ترقیاتی نقصانات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔

چند دنوں پہلے پیتل نگری شہر مرادآباد میں جو سانحہ پیش آیا کسی بھی لحاظ سے اسے نیک شگون نہیں مانا جاسکتا ہے۔ جس طرح سے نماز تراویح میں مشغول لوگوں پر شرپسندوں کی جماعت نے حملہ کیا اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔

مزید یہ کہ مہاراشٹر کے جالنہ علاقے میں تراویح پڑھانے والے  امام کو جس پیمانے پر مارا-پیٹا گیا اور جس انداز سے اسے زدوکوب کیا گیا وہ ناقابل بیان ہے۔ بلکہ شرپسندوں نے تو اپنی شرپسندی کی انتہا کردی کہ امام موصوف کی  داڑھی تک کاٹ دیا۔ اس سے پہلے بھی نماز کو لے کر ملکی پیمانے پر کافی کچھ ہنگامہ آرائی کی جاچکی ہے۔

خیال رہے کہ اس طرح کے حادثات نہ صرف ایک طبقے کے لیے سوہان روح ہے بلکہ پورے ہندوستانی سماج و معاشرے اور ملک و ملت کے ماتھے پر ایک کلنک ہے ایک بدنما داغ ہے اور عالمی سطح پر ہندوستان کا سر شرم سے جھکانے کے لیے کافی ہے کہ آج جہاں ایک طرف امریکا جیسا ملک خیرسگالی اور انسانی ہمدردی کی مثال پیش کررہا ہے تو دوسری طرف ہمارا ملک ہندوستان غیر انسانی وغیراخلاقی رویہ کے سبب اپنی ساکھ اور اپنا وقار کھوتا جارہا ہے۔

چناں چہ اس طرح کے معاملات پر نہ صرف حکومت کو نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور ہر طرح کے سیاسی مفاد سے اوپر اٹھ کر ملک و ملت کے حق میں فکر کرنے کی ضرورت ہے۔

بعینہ تمام باشندگان ہند اور تمام مذاہب و ملل کے لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ تمام تر تعصب و عناد سے اوپر اٹھ کر سوچیں اور اپنے ملک و معاشرے سے ایسے تمام  شرپسند عناصر کا قلعہ قمع کریں جو ہندوستان کی تعمیر و ترقی، امن و آشتی اور اتحاد و یگانگت کو بگاڑنے میں لگے ہیں اور گنگا جمنی تہذیب کو خاک میں ملانے کے درپے ہے۔

ورنہ ایک دن وہ بھی آئےگا کہ امن و آشتی کا گہوارہ ہمارا ملک پستی کی کھائی میں گرجائے گا اور پھر نہ ہمارا وقار بحال رہے گا اور نہ ہمارا ملک۔ الاخیر اس دن کف افسوس ملنے کے سوا ہمارے پاس کچھ چارہ نہ ہوگا۔اس لیے ابھی بھی وقت ہے، بیدار ہوا جائے اور اس سے پہلے کہ ہمارا ملک اور ہماری گنگا جمنی تعصب و عناد کی بھینٹ چڑھ جائے اس کو تحفظ فراہم کیا جائے۔

Recommended