<p style="text-align: right;">دیوالی، اُردو اور ہندوستانی مسلمان
ہندو دھرم کے اہم تہواروں میں ایک تہوار دیوالی ہے۔ یہ تہوار خوشیوں کا ہے اور چراغاں کا ہے۔ مسلمانوں میں جو اہمیت عید کی ہوتی ہے تقریباً وہی اہمیت ہندو سماج میں دیوالی کی ہے۔ کارتک کے مہینے میں کروا چوتھ کے بعد یہ تہوار آتا ہے۔ انگریزی مہینوں کے حساب سے اکتوبر یا نومبر کے مہینے میں دیوالی کا تہوار پڑتا ہے۔ رام نومی، دشہرہ، نوراترا، دھن تیرس، بھیا دوج اور پھر دیوالی۔ یہ پورا تہواروں کا موسم ہوتا ہے۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ صدیوں صدیوں سے ہندوستان میں دیوالی کا تہوار بڑی د ھوم دھام سے منایا جاتا ہے۔ یہ برسات ختم ہونے اور سردی کی آمد کا زمانہ ہوتا ہے۔ اس لئے گھروں کی خوب صاف صفائی کی جاتی ہے۔ گھروں کو سجایا جاتا ہے۔ نئے برتن اور نئی چیزیں خریدی جاتی ہیں۔
دیوالی دراصل سنسکرت لفظ دیپ اور آؤلی سے مل کر بنا ہے یعنی دیپاولی۔ دیپاولی کے معنی ہیں چراغوں کی قطار۔ اسے دیپ مالا بھی کہتے ہیں۔ روایت مشہور ہے کہ جب مریادا پُرشوتم بھگوان رام لنکا فتح کرنے کے بعد سیتا جی اور لکشمن کے ہمراہ اپنے بن باس سے واپس لوٹے تو ایودھیا والوں ان کے استقبال میں نے اپنے گھروں کو سجایا، جگہ جگہ دیپ جلا کر اپنی خوشیاں ظاہر کیں۔ یہی رواج چل پڑا اور دیوالی کے تہوار کی شکل اختیار کر گیا۔
ہندوستان کے مسلمان بھی عموماً دیوالی کے تہوار میں اپنے ہم وطنوں کے ساتھ شریک ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ مغلوں کے وقت سے چل رہا ہے۔ ہندوستان کے اس قدیم تہوار کی سرپرستی میں یہاں کے مسلمان بادشاہ بھی پیش پیش رہے ہیں۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ کی تحقیق کے مطابق دیوالی کے موقع پر مغل بادشاہ ایک ایسے برتن سے نہاتے تھے،جس میں اکیس چھید ہوتے تھے۔ بادشاہ کو تولا جاتا تھا اور وہ رقم غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی۔ نادرات شاہی میں لکھا ہے کہ قلعہ معلی میں دیوالی بھی عید، عید قربان، آخری چار شنبہ، اور عرسوں کی طرح بڑی دھوم دھام سے منائی جاتی تھی۔ اماوس کے روز سرسوتی پوجن کا التزام کیا جاتا تھا۔ جابجا چراغ جلائے جاتے تھے۔ آتش بازی کے تماشے ہوتے تھے۔ لوگ زری پوشاک پہنتے تھے۔ عورتیں تلک لگا کر سولہ سنگار کرتی تھیں۔مغلوں کے زمانے میں دیوالی منانے کا یہ جو سلسہ شروع ہوا وہ اکیسویں صدی کی تیسری دہائی میں بھی جاری و ساری ہے۔ اب بھی ہندوستان کے طول وعرض میں مسلمان بھی کسی نہ کسی صورت اپنے ہندو بھائیوں کے ہمراہ دیوالی کا تہوار مناتے ہیں۔ ان کی خوشیوں میں نہ صرف شریک ہوتے ہیں بلکہ خود بھی آتش بازی کرنے اور خوشیاں منانے کا بھرپور اہتمام کرتے ہیں۔
اُردو کے شاعروں نے تمام مذہبی روایات اور تہواروں پر شاعری کی ہے۔ تو بھلا یہ کیسے ممکن تھا کہ دیوالی پر اُردو شاعروں نے طبع آزمائی نہ کی ہو۔ عہد ِ میر ؔ سے ذرا پہلے کے شاعر شیخ ظہور الدین حاتم ؔ کے اشعار ہیں:
قطار ایسے چراغوں کی بنائی کتابوں پر ہو جوں جدول طلائی
لویں ان کی سروں پر یوں لگی ہیں کہ جیسے طرہ زریں دھریں ہیں
لب تالاب ہے ایسے جھلاجھل گویا باندھی ہیں مقیشیں مسلسل
در و دیوار و بام و صحن و گلشن چراغوں سے ہوا ہے روز روشن
اور بھی تمام شعرائے اردو نے دیوالی کے حوالے سے شاعری کی ہے۔ نظیر ؔ اکبر آبادی ایک ایسے اہم عوامی شاعر ہیں جنھوں نے تمام تہواروں پر شاعری کی ہے تو بھلا دیوالی پر ان کی شاعری کا ذکر کیوں کر نہ ہوگا۔ نظیر ؔ اکبر آبادی لکھتے ہیں:
ہر اک مکاں میں جلا پھر دیا دوالی کا ہر اک طرف کو اجالا ہوا دوالی کا
سبھی کے جی کو سماں بھا گیا دوالی کا کسی کے دل کو مزا خوش خوش لگا دوالی کا
عجب بہار کا ہے دن بنا دوالی کا
(ڈاکٹر شفیع ایوب)</p>.