Urdu News

ڈاکٹر امتیاز باشاہ ،اردو زبان و ادب کا ایک نایاب نگینہ

ڈاکٹر امتیاز باشاہ ،اردو زبان و ادب کا ایک نایاب نگینہ

ڈاکٹر سید سجاد حسین

سابق صدر،شعبہ عربی فارسی و ارد،    مدراس یونیورسٹی

وانمباڑی کی زرخیز اور متبرک مٹی نے کئی ایسے لعل و گہر پیدا کئے ہیں جنھوں نے اپنی فہم و ذکا اور جہدِ مسلسل سے نہ صرف اردو زبان و ادب کو پروان چڑھایا بلکہ ہماری تہذیب و ثقافت کے فروغ اور بقائے باہم کے لیے راہیں بھی ہموار کیں ہنوزیہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ایسے ہی لعل و گہر میں ڈاکٹر امتیاز باشاہ کا شمار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر موصوف سے میرے بڑے دیرینہ اور برادرانہ تعلقات ہیں۔ میں نے انھیں بہت قریب سے دیکھا ہے۔ آپ کی دعوت پر کئی ایک شعری نشستوں اور ادبی جلسوں میں مجھے شریک ہونے کا موقع بھی ملا ہے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ ہر موقع پر آپ نے اپنی کارگذاریوں سے مجھے متاثر کیا ہے۔ آپ بنیادی طور پر یونانی طبیب ہیں مگر اردو زبان سے آپ کی والہانہ محبت نے آپ کو پابہ جولاں رکھا ہے۔ اردو کے لئے کچھ نہ کچھ کرگذرنے کا جذبہ دل میں موجزن رہتا ہے۔ آپ بلند ارادوں کے حامل، مستقل مزاج، نہایت شفیق اور منکسر المزاج ہونے کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کا جذبہ آپ کے اندر کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔

ارادے جن کے پختہ ہوں یقیں جن کو خدا پر ہو

تلاطم  خیز موجوں سے وہ  گھبرایا نہیں کرتے

ڈاکٹر امتیاز باشاہ کی زندگی اور کردار پر یہ شعر صادق آتا ہے۔ ڈاکٹر امتیاز نام ہے ایک جہد مسلسل کا۔وہ استعارہ ہیں خاروں کے درمیاں مسکراتے گلاب کا۔ وہ نا مساعد حالات میں جینے کا ہنر جانتے ہیں۔ وہ مایوسیوں میں امید کا چراغ بن کر روشنی بکھیرتے ہیں اسی لیے میں اکثر کہتا ہوں کہ ڈاکٹر امتیاز باشاہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ وہ اپنی مثال آپ ہیں اور اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں۔

ڈاکٹر امتیاز باشاہ کا شمار نئی نسل کے ممتاز و مخلص محبانِ اردو میں ہوتا ہے جو شہر وانمباڑی میں اپنی لسانی، ادبی، صحافتی اور فلاحی خدمات کے لیے پہچانے جاتے ہیں۔ وہ صرف مجاہد اردو ہی نہیں خادمِ اردو بھی ہیں، صحافی بھی ہیں، ماہر تعلیم بھی ہیں اور سماجی کارگذار بھی۔وہ خدمت خلق ہی کو اپنی زندگی سمجھتے ہیں۔ وہ ہر کام چاہے صحافت کا ہو، تعلیم کا ہو، ادب کا ہو یا قومی خدمت کاعبادت سمجھ کر کرتے ہیں، اسی لیے اردو حلقوں میں آپ ہردلعزیز بھی ہیں۔

آپ”انجمن فروغ اردو“، وانمباڑی کے بانی و سرپرست ہیں۔ اس کے تحت آپ نے نہ صرف کئی شاندار مشاعرے منعقد کئے بلکہ متعدد بار ادبی اجلاس کا انعقاد بھی کیا۔ آپ کا ایک اور ادارہ ”بزمِ اردو ادب“ بھی اپنی علاحدہ پہچان رکھتا ہے۔ اس کے اغراض و مقاصد میں ادبی سرگرمیوں کے ساتھ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت بھی شامل ہے۔ اس کے زیر اہتمام ڈاکٹر موصوف وقتا ًفوقتاً شائع ہونے والی ادبی کتابوں اور شعری مجموعوں کی رسمِ رونمائی کی ذمہ داری اپنے ذاتی صرفے سے ادا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ ہر سال بڑی پابندی سے شاندار پیمانے پر ”اردو میلہ“ کا انعقاد کرکے مستحق مشاہیر ادب اور اساتذہ کو ان کی انفرادی خدمات کے اعتراف میں انھیں انعامات و اعزازات سے سرفراز کرتے ہیں۔

ایک صحافی کی حیثیت سے بھی ڈاکٹر امتیاز باشاہ اپنی علاحدہ پہچان رکھتے ہیں۔ ماہ نامہ ”فروغِ اردو“ آپ کی ادارت میں نکلنے والا ایک معروف ادبی رسالہ ہے۔یہ 2012 میں جاری ہوا اب تک اس کے اٹھارہ شمارے منظر عام پر آچکے ہیں۔ اس رسالے کو جاری کرنے کا مقصد یہ تھا کہ نو جوان نسل میں اردو سے دلچسپی اور رغبت بڑھائی جائے جیسا کہ رسالے کے نام سے بھی ظاہر ہے۔ فروغ اردو کا اداریہ جس میں اردو زبان کی ترقی و فروغ ا ور تحفظ کے لیے مسلسل آواز اٹھائی جاتی تھی۔

فروغ اردو نے وقتا ًفوقتا ًخصوصی نمبر بھی شائع کئے ہیں۔ وانمباڑی میں حضرت ٹیپو سلطان کی یومِ شہادت پر بزمِ اردو ادب کے زیر اہتمام ایک سیمینار منعقد کیا گیا تھا۔ اس سیمینار کے مقالوں کو امتیاز باشاہ نے ”فروغ اردو“، مئی  2013 کے خصوصی شمارے میں شائع کیا۔ اس شمارے میں ٹیپو سلطان پر آٹھ مضامین شامل ہیں۔

1۔نواب ٹیپو سلطان کی سیرت و شخصیت  مذہبی رواداری اور انتظام سلطنت کی جھلکیاں ۔  ڈاکٹر سید سجاد حسین

2۔ حضرت ٹیپو سلطان کی عظمت کے نقوش ۔  ڈاکٹر حیات افتخار

3۔ سلطنت خدا داد میں فارسی اور اردو ۔  علیم صبا نویدی

4۔غدر ویلور  1806 ۔  حافظ ڈاکٹر بشیر الحق قریشی

5۔ ٹیپو سلطان جنگ آزادی کے اولین سپہ سالار ۔  پروفیسر محمد سہیل

6۔ ٹپو سلطان کی صلاحیتوں کا انگریزوں کی طرف سے اعتراف ۔  مشتاق سعید

7۔ ٹیپو سلطان کی تعمیر کردہ مسجد اعلیٰ۔ ایک جائزہ ۔  ڈاکٹر جاویدہ حبیب

8۔ ٹیپو سلطان ایک سیکولر حکمراں ۔  محمد احمد شیون

ماہ نامہ فروغ اردو میں جہاں ایک کالم ”طب“ کا ہوتا وہاں ادب کا گوشہ بھی علاحدہ ہوتا تھا۔ جس میں مضامین، افسانے اور مختلف شعری اصناف جیسے حمد، نعت، نظمیں، غزلیں، قطعات وغیرہ شامل ہوتے تھے۔ ان کے علاوہ مشہور و نامور شعراء کے منتخب کلام بھی شائع کئے جاتے تھے۔ اس سے قطع نظر ماہ نامہ امتیاز اردو بھی آپ کی صحافتی ہنر مندی کا ضامن ہے۔ اس میں بھی مقامی ادبا و شعرا کے علاوہ ملک بھر کے نامور اہل قلم کی گراں قدر تخلیقات و تحریرں بھی جگہ پاتی ہیں۔ عنقریب ماہ نامہ امتیاز اردو کی اشاعت متوقع ہے جس میں علامہ اقبالؔ پر لکھے گئے گراں قدر مضامین شامل ہوں گے۔ آپ کی تصنیفات و تالیفات میں ”تمل ناڈو کے معاصر غزل گو شعرا کا شناخت نامہ“، ”علیم صبا نویدی کا ادبی سفر“، ”سرسید شخصیت اور خدمات“، ”قائد ملت محمد اسماعیل صاحب۔ مسلم لیگ کے اولین رہنما“ قابل ذکر ہیں۔ان کے علاوہ سراج زیبائی کی شعری تصنیف ”لمحوں کا کرب“۔ (دوسرا ایڈیشن) کے مرتب بھی ہیں۔ ڈاکٹر موصوف کا یوٹیوب چینل ”امتیاز اردو“ ان دنوں اردو حلقوں میں کافی مقبول ہے۔اس چینل کے تحت ممتاز شعراء کرام کی تخلیقات بہ زبانِ شاعر پیش کی جاتی ہیں۔ حال ہی میں دہلی کے ممتاز شاعر اقبال اشہرؔ کی مشہورِ زمانہ نظم ”اردو ہے میرا نام“ کو وانمباڑی کے ایک طالب علم نے امتیاز اردو چینل پر خوش الہانی و خوش اسلوبی  کے ساتھ پیش کیا تھا۔

آپ کا دائرہ کار اتنا وسیع ہے کہ آپ کی قائم کردہ ”قائد ملت اکیڈمی“ کے تحت مفت کوچنگ کے ساتھ کمپیوٹر اور اسپوکن انگلش کی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ آپ کی سرپرستی میں تمل ناڈو اردو تحقیقی مرکز کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس کے اغراض و مقاصد میں اردو زبان کے فروغ کے ساتھ کئی ایک اہم منصوبوں پر عمل پیرائی بھی شامل ہے۔ علاوہ ازیں آپ نے تشنگانِ علم و ادب کے لئے اپنے ذاتی صرفے سے ایک کتب خانے کا قیام بھی عمل میں لایا ہے جس میں دینی، علمی وا دبی کتابوں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ آپ کی ان ہمہ گیر علمی، صحافتی و ادبی خدمات کے اعتراف میں مختلف تنظیموں اور اداروں نے انھیں انعام و اکرام سے نوازا ہے۔ ”کرناٹک اردو اکیڈمی“ اور”محفل نساء“،  بنگلور کے اشتراک سے آپ کی صحافتی خدمات کے لئے گراں قدر ”محمود ایاز ایوارڈ“ سے سرفراز کیا گیا۔ حال ہی میں ”ادارۂ ادبِ صادق“، حیدر آباد کی جانب سے ڈاکٹر امتیاز کو ”مجاہد اردو‘‘کے معزز لقب سے بھی نوازا گیا۔ آپ کو دیگر ادبی تنظیموں سے بھی وقتاً فوقتاً انعامات و اعزازات عطا کئے جاتے رہے ہیں۔

ڈاکٹر امتیاز باشاہ کے اندر اردو تعلیم کو فروغ دینے اور اسے عام کرنے کا جذبہ اس قدر کارفرما ہے کہ وہ اردو تعلیم کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں اور اردو کو اس کا جائز حق دلانے میں ہمیشہ سرگرداں و کوشاں رہتے ہیں۔ آپ کی ان گراں قدر خدمات اور ادبی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے ہم امید کرتے ہیں کہ اردو زبان و ادب سے متعلق آپ کی والہانہ وابستگی اور بے لوث خدمات کا یہ سلسلہ آئندہ بھی اسی طرح پورے آب و تاب کے ساتھ جاری رہے گا۔آخر میں اقبال ؔ کا یہ شعر آپ کی نذر کرتے ہوئے اپنی بات ختم کرتا ہوں۔

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں

Dr.G.IMTIYAZ BASHA

66,Gundu Ibrahim Sb Street,

6th Cross,Yaseenabad.Muslimpur,

Vaniyambadi-635751

TPT DT  -TN

Cell:9366111959

Recommended