ڈاکٹر مسرت شاھد
مدھیہ پردیش کی سیاست میں ڈاکٹر مسرت شاھد ایک چمکدار روشن مسلم چہرہ تھا.جو ایک پسماندہ قصبہ کے مذہبی ماحول سے ابھر کر سامنے ایا تھا,انکا وطن سرونج جہاں خواتین کے لئےپردہ تھااورقدم قدم پر پابندیاں تھیں تاہم انکے والد ایک روشن خیال وکیل تھےاسکا نتیجہ یہ ہوا کہ اس قدامت پرست معاشرے سے ایک تعلیم یافتہ سائنس کی برلینٹ ریسرچ اسکالر,سماجی کارکن اور سیاستداں سامنے آگئی یہ راستہ اسان نہ تھا انک سفر محنت و لگن کا جدو جہد بھرا تھا, انکے شوہر شاھد میر خود ایک سائنسداں تھے
اور ملک گیر شہرت کے حامل البیلے و منفرد شاعر تھے.
مدھیہ پردیش کی کانگریسی سیاست میں انھوں نے بار بار کی نا انصافیوں کے باوجود اپنی حیثیت و اہمیت تسلیم کروالی تھی.مسرت شاھد ریاستی مہیلا کانگریس کی صدر,ایم پی مہیلا ارتھک نگم کی چیر پرسن, مولانا ازاد فاونڈیشن کی خازن, حج کمیٹی اف انڈیا بورڈ کی رکن,سنٹرل ریلوے ایڈوائزری بورڈ کی سدسیہ,بینک آف بڑودہ ورکنگ کمیٹی کی ممبر.کے علاوہ متعدد میدانوں میں انھوں
نے اپنے نقش قدم ثبت کئے تھے.
مسرت شاھد بےحد ایماندار,محنتی,سیکولر رہنما تھیں,تاہم جیسا کہ زمانے کا دستور ہے انکو اپنوں اور انکی پارٹی کی قیادت نے ہمیشہ نظر انداز کیا کہ مبادہ انکا قد اسقدر نہ بڑھ جائے کہ وہ مرکزی یاریاستی سیاست میں ناگزیر بن جائیں, مسرت شاھد کی سیاست کی بنیاد خدمت خلو اور انصاف پر مبنی تھی,اج کے زمنے کی سیاست کا دوغلا پن اور صرف ذاتی مفاد انکے سامنے کبھی نہیں رہا ,ایسے ایماندار, مخلًص.محنتی,لیڈر کا ہمارے درمیان سے اٹھ جانا نا قابل تلافی نقصان ہے اس لئے بھی کہ وطن عزیز کی سیاست اب مذہبی بنیادوں پر استوار ہورہی ہے چاہے کوئی بھی پارٹی ہو زعفرانی رنگ و روغن اس پر چمک رہا ہے ایسے وقت میں کسی بھی نئے اقلیتی رہنما کا سر سبز ہونا دشوار ہے
مسرت شاھد ایک بےحد خلیق خاتون تھیں خدمت گزار بیوی.بھائی بہنوں کے لئے بحثیت ماں کے فکر مند انکے صاحبزادے اور بیٹی بھی والدہ کے نقش قدم پر ماں سے ٹوٹ کرمحبت کرنے والے وہ اپنےچھوٹے بھائی محمود ملک(اعزازی مدیر کاروان ادب) کو بھی
بہت چاہتی تھیں اج وہ سب سرونج اور بھوپال کے ہزاروں کاریہ کرتا غم گین ہیں ,"ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے"