Urdu News

ڈاکٹر رفیق زکریا: ہندوستان میں تعلیمی انقلاب کے ہیرو

ڈاکٹر رفیق زکریا 9جولائی 2005 کو 85 سال کی عمر میں، ایک بھرپور، با مقصد اور با عمل اور لائق تقلید زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

 

 


 
سر سید، مولانا آزاد اور رفیق زکریا: ایک تثلیث 
ڈاکٹر رفیق ذ کریا کے تعلیمی کارنامے 
ڈاکٹر رفیق زکریا:  ہندوستان میں تعلیمی انقلاب کے ہیرو 
ڈاکٹر شفیع ایوب 
ڈاکٹر رفیق زکریا کا شمار ان دانشوران قوم میں ہوتا ہے جنھوں نے با مقصد اور با عمل زندگی گزاری۔ ان کی شناخت کے کئی حوالے ہیں۔ وہ ایک کامیاب بیرسٹر تھے، ماہر قانون تھے۔ وہ ایک ممتاز مفکر اور ادیب تھے۔ درجنوں بیسٹ سیلر کتابوں کے مصنف تھے۔ ایک بے دار ذہن اور بے باک صحافی تھے۔ ایک دور اندیش سیاست داں تھے۔ ممبر آف اسمبلی اور ممبر آف پارلیامنٹ رہے۔ مہاراشٹر حکومت میں کیبنٹ منسٹر تھے۔ لوک سبھا میں شریمتی اندرا گاندھی کے نائب کی حیثیت سے کام کیا۔ لیکن راقم السطور کی نظر میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ تعلیمی انقلاب ہے۔ کئی ماہرین نے انھیں دور جدید کا سر سید کہا ہے۔ کسی نے انھیں مہاراشٹر کا سر سید قرار دیا۔ سر سید مرحوم کی طرح ڈاکٹر رفیق زکریا بھی زندگی بھر نہ صرف قلم سے جہاد کرتے رہے بلکہ عملی زندگی میں بھی ہر صبح، ہر شام سر گرم رہے۔ 
ڈاکٹر رفیق زکریا 1920 میں 5  اپریل کو ایک کونکنی مسلم خاندان میں پیدا ہوئے۔ مہاراشٹر کے تاریخی شہر اورنگ آباد کو اپنی کرم بھومی بنایا۔ مہاراشٹر اسمبلی میں اورنگ آباد کی نمائندگی کرتے رہے۔ اورنگ آباد وہ تاریخی شہر ہے جس سے محض سو کیلومیٹر کی دوری پر اجنتا اور محض تیس کیلومیٹر کی دوری پر ایلورا کی گپھائیں ہیں۔ اورنگ آباد سے ایلورا جاتے ہوئے درمیان میں آپ کو دیو گری کے کھنڈرات ملیں گے جسے دولت آباد کے نام سے محمد بن تغلق نے بسایا تھا۔ وہ مشہور تاریخی واقعہ جسے ”دلّی سے دولت آباد“کے نام سے جانتے ہیں، وہ یہی دولت آباد ہے۔ دولت آباد سے ذرا آگے بڑھیں گے تو خلد آباد میں مغل بادشاہ اورنگ زیب عالم گیر کی آخری آرام گاہ ہے۔ یہ پُر فضا مقام انگور، انجیر،انار اور طرح طرح کے پھلوں کی پیداوار کے لئے بھی جانا جاتا ہے۔ اورنگ آباد شہر نے اسلامیات کے میدان میں مولانا ابو اعلیٰ مودودی، اردو ادب میں بابائے اردو مولوی عبدالحق، میدان شاعری میں ولی دکنی، سراج اورنگ آبادی، حمایت علی شاعر،جے۔ پی۔ سعید، بشر نواز، قمر اقبال، جاوید ناصر،داغ اسکول کے نمائندہ شاعر صفی اورنگ آبادی اور خان شمیم جیسی شخصیات دی ہیں۔ اس تاریخی شہر اورنگ آباد میں آج بھی پروفیسر شاہ حسین نہری جیسی بزرگ شخصیت، ارتکاز افضل جیسے ممتاز  دانشور، اسکالر اورشاعر، خان مقیم خان جیسے نامور اہل زبان براڈ کاسٹر، اسلم مرزا جیسے مایا ناز ادیب اور مترجم اور پروفیسر انتخاب حمید جیسے اسکالر، نورالحسنین جیسے مشہور و معروف فکشن رائٹر اور ڈاکٹر قاضی نوید صدیقی جیسے نوجوان ناقد اپنی موجودگی سے شہر کی فضا کو علم کی خوشبو سے معطر کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر فیصل احمد، ڈاکٹر فیاض فاروقی اور ڈاکٹر شیخ پرویز اسلم جیسے نوجوان اسکالرز اس شہر کی علمی فضا کو معطر رکھتے ہیں۔ ممتاز و معروف نقاد پروفیسر عتیق اللہ، جدید افسانہ نگاری کا سب سے نمایاں نام پروفیسر حمید سہر وردی اور کلاسیکی رچاؤ کے جدید شاعر ڈاکٹر سلیم محی الدین کا بھی شہر اورنگ آباد سے ایک خاص رشتہ ہے۔ اس تاریخی شہر میں آج بھی پدم شری بیگم فاطمہ رفیق زکریا جیسی مایا ناز ہستی مقیم ہے۔ میڈم فاطمہ کی شخصیت اپنے آپ میں ایک ادارہ ہے۔ وہ نہ صرف مرحوم ڈاکٹر رفیق زکریہ کی نصف بہتر کی حیثیت سے، اور عالمی شہرت یافتہ دانشور صحافی فرید زکریہ کی ماں کی حیثیت سے، بلکہ ایک بے دار ذہن صحافی اور اسکالر میڈم فاطمہ کی حیثیت سے اس مشن کو پورا کرنے میں مصروف ہیں جو مرحوم رفیق زکریہ کا خواب تھا۔ پدم شری میڈم فاطمہ رفیق زکریہ نے مشہور زمانہ انگریزی اخبار دی ٹائمز آف انڈیا سے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز کیا تھا۔ اپنی تمام تر صحافتی ہنر کوانھوں نے فروغ تعلیم کے لئے وقف کر دیا۔ آج اورنگ آباد میں جو اعلیٰ تعلیمی ادارے علم کی شمع روشن کئے ہوئے ہیں ان کی سربراہی میڈم فاطمہ رفیق زکریہ بہ حسن و خوبی کر رہی ہیں۔(عجیب اتفاق ہے کہ 5  اپریل رفیق زکریا کا جنم دن ہے اور اگلے روز 6اپریل کو فاطمہ رفیق زکریا کی پہلی برسی ہے۔ وہ بھی اپنے شوہر کی طرح ٹھیک پچاسی سال کی عمر میں 6اپریل 2021کو اس دنیا سے رخصت ہوئیں)    
ڈاکٹر رفیق زکریہ 9جولائی  2005 کو 85  سال کی عمر میں، ایک بھرپور، با مقصد اور با عمل اور لائق تقلید زندگی گزار کر اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ تاریخی شہر اورنگ آباد کو ماڈرن اورنگ آباد میں تبدیل کرنے کا سہرا ڈاکٹر رفیق زکریہ کے سر ہے۔ حقیقی معنوں میں وہ جدید اورنگ آباد کے آرکیٹیکٹ ہیں۔ انھوں نے کئی تعلیمی ادارے قائم کئے۔ معیاری جدید تعلیمی دارے۔ ڈاکٹر رفیق زکریہ خود اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے، لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی اور خوب واقف تھے کی میدان تعلیم میں سبقت میں ہی قوم کی نجات مضمر ہے۔ وہ سر سید احمد خان اور مولانا ابولکلام آزاد سے بہت متاثر تھے۔ انھوں نے فکر سر سید اور غم مولانا آزاد کو اپنی زندگی میں داخل کر لیا تھا۔ ان کے شب و روز اسی فکر میں گزرے۔راتیں تصنیف و تالیف میں اور دن قوم کی غم گساری میں گزرتے تھے۔ انھوں نے صرف تعلیمی ادارے ہی نہیں قائم کئے بلکہ اعلیٰ اور معیاری تعلیم کو فروغ دینے کا کام کیا۔ وہ جانتے تھے صرف روایتی تعلیم سے کام نہیں چلے گا۔ جدید تقاضوں کو سمجھنا ہوگا اور ان کے مطابق تعلیم کا نظم کرنا ہوگا۔ قوم و ملت کی فلاح کا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ شمالی ہند میں بھی اقلیتی تعلیمی ادارے قائم کئے گئے لیکن راقم السطور کے تجربے میں یہ بات ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے معیار میں بہت پیچھے ہیں۔ ہمیں ڈاکٹر رفیق زکریہ کے کارناموں کو یاد بھی کرنا ہے اور اس سے سبق بھی حاصل کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر رفیق زکریہ نے مولانا آزاد ایجوکیشنل ٹرسٹ قائم کر کے کئی جدید تعلیمی ادارے قائم کئے جو آج میڈم فاطمہ رفیق زکریہ کی سرپرستی میں تعلیم کے میدان میں کار ہائے نمایاں انجام دے رہے ہیں۔ آج قوم کو صرف تعلیم نہیں بلکہ اعلیٰ اور معیاری تعلیم کی ضرورت ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہی اپنے مفادات کے لئے بہتر ڈھنگ سے لڑ سکتا ہے۔ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص ہی کسی جمہوری نظام میں اپنے حقوق کی حفاظت کر سکتا ہے۔ صرف ایک مثال ہی کافی ہے۔ جب بدنام زمانہ ہند نژاد برطانوی ناول نگار سلمان رشدی نے ”دی سٹینک ورسیز“ لکھا تو ملک بھر میں احتجاجی جلسے ہونے لگے۔ بغیر ناول پڑھے جوشیلی تقریریں ہونے لگیں۔ مسٹر راجیو گاندھی اس وقت وزیر اعظم تھے۔ راجیو گاندھی کی حکومت نے اس بکواس ناول ”دی سٹینک ورسیز“ پر پابندی عائد کر دی۔ سلمان رشدی نے راجیو گاندھی کو ایک خط لکھ کر یہ بتایا کہ اس کے ناول میں اسلام، پیغمبر اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہے۔ ہندستان کی دھرتی سے صرف ایک اسکالر ایسا تھا جس نے سلمان رشدی کے اس خط کا عالمانہ جواب دیا۔ ملک و ملت کے اس عظیم سپوت کا نام ڈاکٹر رفیق زکریہ تھا۔ رفیق زکریہ نے نہایت عالمانہ بحث کی اور ملعون سلمان رشدی کے جھوٹ کو مدلل بے نقاب کیا۔ انگریزی میں لکھا وہ طویل خط کئی اہم رسائل اور اخبارات میں شائع ہوا۔ اس خط میں کہیں بھی ڈاکٹر رفیق زکریہ نے غصہ، جھنجھلاہٹ، اور دشنام طرازی نہیں کی ہے۔ علمی جواب، منطقی انداز، دلائل سے جھوٹ اور فریب کو بے نقاب کیا ہے۔ وہ خط اپنے آپ میں ایک دستاویز ہے۔ کسی مسئلے پر ہنگامہ کھڑا کرنا، نعرے لگانا، مظاہرہ کرنا، جلسے جلوس نکالنا ایک بات ہے اور علمی جواب دینا ایک الگ بات ہے۔ علمی جواب کا اثر دیر پا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر رفیق زکریہ نے اس معاملے میں بھی ہماری رہنمائی کی ہے۔ ڈاکٹر رفیق زکریہ کی زندگی اور ان کی خدمات بطور نمونہ ہمارے سامنے ہیں۔ اگر ہم نے اس مشن کو دھیان میں رکھ کر ملک کے طول وعرض میں اعلیٰ اور معیاری تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا کام کیا تو ملک کے اس عظیم سپوت کو ہماری سچی خراج عقیدت ہوگی۔  
  (مضمون نگارڈاکٹر شفیع ایوب، جے این یو نئی دہلی میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں)     


Recommended