آفتاب سکندر
ڈاکٹر ذاکر نائیک کو بہت عرصہ سنا ہے مجھے اس کے سائنسی دلائل میں بہت زیادہ سقم نظر آئے ہیں جس کا قلق بھی ہے۔ ایسے سقم کی نشاندہی کو عوام الناس استخفافِ شریعت گردانتے ہوئے سب و شتم پر اتر آتے ہیں ہیں بہرکیف آئیے ذاکر نائیک صاحب کے دئیے گئے سائنسی دلائل کا جائزہ لیتے ہیں۔
خنزیر واحد جانور ہے جو نجس کو اپنی غذا بناتا ہے. اپنی محرمات (یقین مانو یہ دلیل سن کر میری ہنسی ہے کہ رکنے کا نام نہیں لیتی) یعنی ماں وغیرہ کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرتا ہے یا پھر کہ گروپ کی شکل میں مباشرت کرتا ہے اس لئے اس کا گوشت کھانے سے ہم بھی انہی حرکتوں پر اتر آتے ہیں۔
گائے، بیل، بکرا، دنبہ، بھینسا کیا یہ سب تمیز کرتے ہیں محرمات کی چلو اس کو بھی چھوڑیں مرغی گائے کے گوبر میں منہ نہیں ڈالتی کیا۔کیا وجہ ہے کہ یہ چیزیں کھانے سے انسان کے اندر ایسی خوبیاں نہیں آتیں بس خنزیر کا گوشت کھانے سے آجاتی ہیں سائنس کے طلبا جانتے ہیں کہ عادات و اطوار ڈی این اے متعین کرتا ہے اور ملنے والا ماحول متعین کرتا ہے۔ اس کا غذا کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
یہاں پر یہ وضاحت کرتا چلوں کہ یہ موقف جاوید احمد غامدی صاحب جیسے عالم کا بھی ہے جس کا اظہار وہ نجی چینل پر بھی کرچکے ہیں،ہم جنس پرستی کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ فحش ویب سائٹس پر موجود مواد ہے میں صدقے جاؤں حد کردی یہاں آکر تو میں ڈاکٹر صاحب کو داد و تحسین سے نوازنا بے حد ضروری سمجھتا ہوں کہ ویب سائٹس پر موجود فحش مواد انسان کو ہم جنس پرست بناتا ہے پھر آگے چلتے ہیں کہ یہیں نہیں رکتے کہتے ہیں کہ ہم ازدواجی تعلقات کے بعد کچھ مختلف کرنے کی سعی کرتے ہیں اس وجہ سے ہم جنس پرستی پیدا ہوتی ہے۔
یہ دلائل سن کر تو یہی کہنا بنتا ہے کہ ہم سے کچھ نہیں ہونے والا، ہم سے نہ ہی بولا جائے۔
وہ مذہب کی حقانیت پر دلیل دیتے ہیں کہ آسمان چھت ہے جو بنائی گئی ہے۔ آج ہمیں سائنس بتاتی ہے کہ (یہ ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کا موقف ہے) نیلا آسمان اوزون کی تہہ خطرناک الٹرا وائلٹ شعاؤں کو زمین کی طرف آنے سے روکتا ہے۔
آسمان ہمیں نیلا کیوں نظر آتا ہے؟
آسمان ہمیں نیلا اس لئے نظر آتا ہے کیونکہ سورج کی کرنیں جب اوزون کی تہہ اور ہوا میں موجود گرد کے ذرات سے ٹکراتی ہیں تو زیادہ طول موج(wavelength) والی شعائیں مثلاً سرخ، پیلی وغیرہ تو گزر جاتی ہیں مگر کم طول موج رکھنے والی شعائیں (نیلی رنگت) منعکس ہوجاتی ہیں یوں ہمیں نیلے رنگ کا عکس نظر آتا ہے جس سے ہم آسمان بولتے ہیں۔ اس آسمان کا کوئی وجود نہیں ہے یہ بس اُنہی شعاؤں کا عکس ہے۔
طلوعِ آفتاب کے وقت یا غروب آفتاب کے وقت یہی عکس سرخی مائل ہوتا ہے کیونکہ سورج کی کرنیں اُس وقت کرہ ارض پر ترچھی پڑرہی ہوتی ہیں اور زیادہ طول موج والی شعائیں(سرخ) ہی گزر کر پہنچ پاتی ہیں۔
رات کو یہ عکس ہمیں سیاہ نظر آتا کیونکہ سورج کی کرنیں تو پڑ نہیں رہی ہوتی ہیں اور یوں کوئی عکس بن نہیں رہا ہوتا چونکہ روشنی کی عدم دستیابی میں ہمیں جو نظر آتا ہے اس کو ہم سیاہ بولتے ہیں، اس لیے سیاہ نظر آرہا ہوتا ہے۔یہاں بات واضح ہے کہ نیلا آسمان جو چھت ہے اور تحفظ فراہم کرنے والا ہے اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک صاحب کششِ ثقل کے قائل نہیں ہیں اور اس کو ماننے سے انکار کی وجہ بتاتے ہیں کہ پودے اوپر کی طرف اُگتے ہیں یہ دلیل ثابت کرتی ہے کہ کششِ ثقل محض غلط نظریہ ہے۔
خیر اس کی کیا وضاحت کروں! آئیے ان کی انفجارِ عظیم پر دی گئی سائنسی دلیل کی بات کرتے ہیں کہ یہ انفجارِ عظیم کو دھماکہ سمجھتے ہیں ان کی تقاریر موجود ہیں آپ سنیے بگ بینگ کو بڑا دھماکہ کتے ہیں ان کو شاید جدید تحقیقات سے معرفت حاصل نہیں ہے۔ انفجارِ عظیم کسی دھماکے کا نام نہیں ہے! بہر کیف آگے چلتے ہیں اُس دھماکے سے پیدا ہونے والے دھواں کو آسمان کا نام دیتے ہیں یہاں تو حد ہی کردی ہے جناب نے، میری ہنسی ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی یہ جناب آسمان کو دھواں سمجھنے والوں میں سے ہیں تو جب کوئی بندہ اس قسم کے سطحی نظریات پیش کرے تو پھر اس کا سائنسی قد بخوبی واضح ہوجاتا ہے۔