Urdu News

دور جدید کے تقاضوں کے مطابق معلم

آفتاب سکندر

آفتاب سکندر

کسی معاشرے کے ترقی میں دو عناصر کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ صحت اور تعلیم، آپ اگر مذہب کی روح سے دیکھنا چاہیں تو حدیث میں اسلامی ریاست کا نظریہ ہے جس میں عوام کی صحت اور تعلیم کی ذمہ داری ریاست کے سپرد ہے۔

نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ہماری مملکتِ خداداد میں دونوں عناصر کو پس پشت ڈال کر کسی تیسرے عنصر پر بجٹ خرچ کیا جاتا ہے۔ ہمارے بجٹ میں تعلیم کے لیے وقف کردہ اونٹ کے منہ میں زیرہ والی مثال بنتی ہے۔

تعلیم زیورِ حیات ہے۔ ہر انسان کا بنیادی حق ہے چاہے مرد ہو یا عورت یا تیسری صنف. ہمارے ہاں تعلیمی میدان میں خاطر خواہ کوئی پیش رفت نظر نہیں آتی۔ کیونکہ اگر دیکھا جائے تو زیادہ تر تعلیمی اداروں میں لیبارٹری کا سامان ہی میسر نہیں۔ طرفہ تماشا یہ کہ پھر اساتذہ کی دلچسپی کا معیار بھی صفر ہے۔

حال ہی میں جب جہانِ آب و گل میں وجود پذیر انسان نامی مخلوق کو کرونا وائرس نامی متعدی وبائی مرض جکڑ کر پہیہ جام کیا تو جہاں تمام تر کاروباری مراکز بند ہو کر خسارے میں جانے لگے۔

تو وہیں تعلیمی نظام بھی مفلوج ہو گیا. سیدھی بات کی جائے تو اُس وقت کے وفاقی وزیر تعلیم شفقت محمود نے تعلیمی نظام کی شلوار اتاری وہ قابلِ مذمت ہے۔

 بہرکیف میں یہاں بات کسی اور حوالے سے کرنا چاہ رہا ہوں تو اس ضمن میں نجی تعلیمی اداروں نے اپنی خدمات براہِ راست ولایتی بھاشا میں آن لائن پہچانے کی سعی شروع کی۔

چونکہ انشاء پرداز بھی طبعیات کے ادنی سے اتالیق ہیں تو اس حوالے سے چند ایک کلپس ایک صفِ اول کے طبعیات کے اتالیق جناب حسان فاروق صاحب کے زینتِ دید و رصد ہوئی جنہوں نے انگشت بہ لب کردیا۔ کمال ریاضت کے ساتھ فلمائے گئے لیکچرز کے سحر سے نکلنا کچھ آسان نہیں تھا اس لئے متاثر ہوئے بغیر رہ نہ سکے۔

 حسان فاروق صاحب سے کچھ علیک سلیک پہلے بھی تھی اور میرے علم میں ان کی غیر معمولی صلاحیتیں بھی تھیں۔ اُس وقت تو وہ فیس بک پر جواب بھی دے دیتے تھے مگر آج کل لفٹ کرانے میں اُن کا ہاتھ تنگ ہے۔

حسان صاحب نے جامعہ UET سے برقی مہندسیت (الیکٹریکل انجینئرنگ) میں سند حاصل کر رکھی ہے یوں تو وہ تعلیمی اسناد کے اعتبار سےالمہندس ہیں مگر وہ خدمات میں بطور اتالیق سر انجام دے رہے ہیں۔ یہ معمہ بھی قابلِ استفسار تھا چنانچہ پہلی مختصر گفت و شنید میں یہی استفسار کیا۔ جس پر موصوف نے اپنے پیشن کا بتاتے ہوئے اطمینان دلایا۔

 بعدازاں یہ عقدہ کھلا کہ موصوف اپنے پیشن کو عبادت سمجھ کر سر انجام دے رہے ہیں. پنجاب کالج لاہور سے وابستہ اس اتالیق کی کئی وڈیوز وائرل ہوئیں اور ان کو محنت کا صلہ پانے لگی۔ بعدازاں اردو نیوز والے انٹرویو کرکے لاکھوں لوگوں تک ان کی بات پہنچائی یوں سلسلہ چل نکلا ایکسپریس نیوز پر دیدار کروایا اور دوسرے نجی چینلز پر دیدار کروایا

اور پاکستان کے کونے کونے میں اپنی آواز پہنچائی۔ حسان فاروق صاحب کے لیکچرز قابلِ تعریف ہیں۔حسان صاحب پچھلے دنوں ترین فاؤنڈیشن کے زیرِ اہتمام تعلیمی ادارے میں بطور مہمان خصوصی شرکت فرما تھے وہاں بھی لیکچر دے رہے تھے. علاوہ ازیں دوسرے چند ایک مقامات پر پر بھی اُن کی کاوشیں قابل تحسین رہی ہیں۔

 میرا کالم پڑھنے والے تمام احباب سے درخواست ہے کہ وہ جس ادارے میں زیرِ تعلیم ہیں یا مدرب ہیں وہاں پر حسان فاروق صاحب کی کاوشوں کا ذکر کیجئے اور ایک آدھ فنکشن میں ضرور بالضرور مدعو کیجئے NUST جیسی جامعہ میں ننھا پروفیسر جیسے تعلیم و تعلم سے نابلد مدعو کئے جا سکتے ہیں. مذہبی سکالرز مدعو کئے جا سکتے ہیں۔

موٹیویشنل سپیکرز مدعو کئے جا سکتے ہیں گلوکار مدعو کئے جا سکتے ہیں فنکار مدعو کئے جا سکتے ہیں تو حسان فاروق صاحب جیسے دورِ جدید کے طریقوں پر مکمل اترنے والے اساتذہ مدعو نہیں کئے جا سکتے ہیں. آپ کسی سکول میں ہیں کالج میں ہیں یا جامعہ سے منسلک ہیں تو آپ کا حق بنتا ہے کہ حسان صاحب جیسی قابلِ قدر شخصیت کو مدعو کریں یا کروائیں۔

 آپ کے ایسا کرنے سے حسان فاروق کو فرق پڑے نہ پڑے اساتذہ کو فرق پڑے گا وہ سیکھیں گے سکھانے کے عمل کے لیے تگ و دو کریں گے۔ اپنی مدد آپ کے تحت ہم تعلیمی نظام کو چلانے کی کوشش کر سکتے ہیں آپ حسان فاروق صاحب کو آگے لائیں ان جیسے کئی اساتذہ آگے آئیں گے،یوں دورِ جدید کے تقاضوں کے عین مطابق تعلیم و تعلم کا سلسلہ شروع ہو گا۔

Recommended