Urdu News

ایک فکشن نگار کا سفر، میں ہر صاحبِ ذوق کے لیے تسکین کا سامان ہے

کتاب ’’ایک فکشن نگار کا سفر‘‘ کا سرورق

عبداللہ ندیم

کتاب ’’ایک فکشن نگار کا سفر‘‘محض دو دانشوروں کے درمیان بات چیت نہیں ہے بلکہ ادب میں چلی تحریکوں کا معروضی بیان ہے۔ادب سے میری مراد صرف اردو ادب نہیں ہے بلکہ اس میں عالمی ادب بھی شامل ہے اور شمس الرحمن فاروقی صاحب سے بڑا اس ادب کا اخّاذ اورعالم کون ہو سکتا ہے ؟نوجوان ادیب رضوان الدین فاروقی نے اردو والوں پر یہ احسان ِ عظیم کیا کہ اس گفتگو کو جو ادین واجپئی اور فاروقی صاحب کے درمیان ہوئی تھی اور جو ہندی رسالے “سماس” میں چھپی تھی ،اسے اردو کے قالب میں ڈھال دیا۔

میرا شمار ان بدقسمت لوگوں میں ہوتا ہے جنھیں نہ تو فاروقی صاحب کی صحبت نصیب ہوئی اور نہ انھیں سننے کا موقع ملا ،اس لئے میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس میں فاروقی صاحب کا لہجہ اور لے بعینہ موجود ہے ،ہاں میں یہ ضرور کہہ سکتا ہوں کہ ایسا بصیرت آموز انٹرویو کبھی کبھار پڑھنے کو ملتا ہے ،شاید میں اس ادین صاحب کا بھی ہاتھ ہو ۔فی الحال انکے جیسا  ہمہ جہت اور کثیر المطالعہ اور  کوئی ادیب ہمارے درمیان موجود نہیں ہے۔(یہ اس کم فہم کا خیال ہے )ویسے تو سارا انٹرویو ہی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے اور ہماری پوری ادبی تاریخ ورق در ورق کھلتی چلی جاتی ہے لیکن کچھ حصے ایسے ہیں جنھوں نے مجھ جیسے کم علم کو ادب کے تعلق سے ایک نیا زاویہِ فکر عطا کیا۔

مضمون نگار: عبداللہ ندیم

جیسے فاروقی صاحب کا یہ کہنا کہ ’’ہارڈی نے مجھے یہ سکھایا کہ انسانی دکھ درد کو کیسے بیان کیا جاتاہے ۔اس سے مجھے یہ بھی سمجھ میں آیاکہ “ٹرین ٹو پاکستان “”پشاور ایکسپریس””پھول سرخ ہیں “”جب کھیت جاگے””اور انسان مر گیا “ میں جو انسانی دکھ درد دکھایا گیا ہے ،وہ مشینی ہے ۔اس کو پڑھ کر یہ لگ رہا ہے کہ مصنف اسے خود نہیں سہ رہا ہے ۔وہ صرف تمہیں یہ  بتار ہا ہے کہ دیکھو یہ ہو گیا ۔وہ اس درد سے اتنا دور ہے کہ وہ نہ تو اس میں شریک ہے نہ وہ یہ جانتا ہے کہ شریک ہونے والوں پر کیا گزر رہی ہے‘‘۔

یا یہ کہ ادیب کو کیا لکھنا چاہیے ،اس کے تعلق سے ایک بہت سبق آموز قصہ وہ بدر چاچ کے تعلق سے بیان کرتے ہیں

’’دلی کے ایک شاعر تھے بدر چاچ ۔چاچ ایک جگہ کا نام ہے ۔فارسی میں یہ بہت چلتا ہے کہ شاعر کے نام کے ساتھ جگہ کانام جوڑ دیتے ہیں ۔بدر چاچ یعنی چاچ کا بدر ۔بدر ان کا تخلص تھا۔وہ تغلق کے زمانے کے تھے اور بڑی مشکل شاعری کرتے تھے ۔کسی نے ان سے کہا کہ چاچ تمہاری شاعری صرف دو لوگ سمجھ سکتے ہیں ۔چاچ نے جواب دیا “میں انھیں دو لوگوں کے لیے لکھتا ہوں ‘‘۔

مجھے مشہور روسی فلم کار آندرے تارکوسکی یاد آگیا جسکی فلمیں کلاسیک کا درجہ رکھتی ہیں لیکن جس کا کہنا تھا کہ وہ صرف اپنے لئے فلمیں بناتا ہے ۔

فاروقی صاحب نےاپنے مشہورِ زمانہ ناول (magnum opus)”کئی چاند تھے سر آسمان “کے تعلق سے بڑی تفصیلی گفتگو کی ہے ۔فیکٹ اور فکشن کے امتزاج سے انھوں نے جو کردار تخلیق کئے ہیں وہ ہر لکھنے والے کے لئے مشعل ِ راہ بن سکتے ہیں ۔وزیر خانم کا کردار انھوں نے کیسے تخلیق کیا ،اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں ۔

’’میں نے وزیر خانم کے بارے میں جو بھی پڑھا تھا ،وہ دوسرے درجے کا ادب تھا ،جس میں بار بار یہ کہا گیا تھا کہ اس عورت کا تو ہر بچہ شاعر نکلا ،جیسے وہ عورت نہ ہوئی گائے ہوگئی جس کا ہر بچہ سانڈ ہو گیا ۔کہنے کی بات یہ تھی کہ وہ اتنی با صلاحیت عورت تھی کہ جس آدمی سے اس کے بچے ہوئے ،شاعر ہوئے ،لیکن مالک رام جیسے لوگوں نے وہی کچھ لکھا ۔یہ سب پرانے خیالات کے لوگ تھے اور انھوں نے وزیر خانم کی یہ تصویر بنائی کہ وہ ہر جائی اور بد معاش قسم کی عورت تھی مگر مجھے اس کے کردار میں چمک دکھائی دے گئی تھی‘‘۔

فاروقی صاحب نے کس طرح تاریخ اور اپنے تخیل سے اسکا کیریکٹر فلیش آؤٹ (flesh out) کیا ،وہ بڑا دلچسپ ہے ۔وہ کہتے ہیں۔

’’مجھے یہ پتہ تھا کہ داغ پکےکالے تھے اور اگر ان کی اماں گوری تھیں (یا نہیں تھیں ) تو یہ کالا رنگ کہاں سے آیا ؟ اس کے لئے تھوڑا سا کھٹ راگ نکالنا پڑا ۔اگر چہ شمس الدین گورے تھے کیونکہ وہ ترک تھے مگر وہ خود کالی عورت کے بیٹے تھے ۔انکی اماں میوات کے نچلے طبقے کے مسلم خاندان کی لڑکی تھیں ،مدی ۔وہ کالی رہی ہونگی ۔سوال یہ تھا کہ میں اس کالے گورے کو کیسے دکھاؤں ۔ایسی عورت کیسےبنے جو سانولی ہو اور خوبصورت ہو ۔اس وجہ سے میں نے راجستھان کے مصور کا کشمیر سے تعلق جوڑا۔اس سے دو فائدے ہوئے۔

ایک یہ کہ جس طرح کی عورت میں بنانا چاہتا تھا ،اس کا ہالہ جو ہواس میں طاقت کا عنصر بھی ہونا چاہیے ۔وہ تبھی ممکن ہوگا جب میں اس کے پیچھے ایک ثروت مند شجرہ نسب دکھاؤں جس میں فنکارانہ صلاحیتیں ہوں ۔اس کا پرکھا مصور ہے،پھر اس کا پردادامصوری بھلے نہ سمجھے ،خود ڈیزائنر ہے غالیچے کا ،اس کے بیٹے شاعر اور موسیقار ہیں ۔میں نے یہ شجرہ نسب اس لئے بنایا کیونکہ ایک ایسا شجرہ جس میں جغرافیائی فرق ہو ،ضروری تھا۔اس میں ایک طرف راجستھان ہے ،جہاں لوگ بھورے یا گہرے رنگ کے ہوتے ہیں اور ریگستان میں رہتے ہیں ۔دوسری طرف کشمیر ہے۔دوسری طرف کشمیر ہے ،جہاں پانی بہتا ہی رہتا ہے ،ہریالی ہر طرف رہتی ہے ،بھلے ہی برف کیوں نہ گری ہو اور وہاں کے لوگوں کا رنگ گورا۔ان دونوں کو ملانا ضروری تھا،اس کے بغیر وہ مخصوص ہالہ نہیں بنتا جس میں طاقت اور خوبصورتی دونوں ہوں ،اس لیےان سب کو  میں نے وضع کر لیا‘‘۔

فاروقی صاحب نے اپنی کج کلاہی کا قصہ بھی کیا خوب سنایا ہے ۔ہوا یوں کہ جن دنوں وہ لیکچرر بننے کے لیے الہ آباد یونیورسٹی کے انگلش دیپارٹمنٹ کا چکر کاٹ رہے تھے ،انھیں خیال آیا کہ کیوں نہ پی ایچ ڈی کر لی جائے ۔ہری ونش رائے بچن ان دنوں تازہ تازہ پی ایچ ڈی کر کے لندن سے لوٹے تھے ۔فاروقی صاحب ان کے پاس گئے اور اپنا موضوع بتایا ۔انھوں نے دوسرے دن تفصیلی گفتگو کے لیے بلایا۔اتفاق سے اس دن بہت بارش ہوئی اور فاروقی صاحب پہنچ نہیں پائے ۔اگلے دن جب پہنچے تو بچن صاحب نے کہا کہ “آپ پی ایچ ڈی کیا کریں گے،آپ کو کل گیارہ بجے کا وقت دیا تھا ،آپ آج آرہے ہیں‘‘۔

فاروقی صاحب کو یہ بات اچھی نہیں لگی اور وہ پھر کبھی واپس نہیں گئے  ۔دیکھیے اس واقعے کو وہ کیسے بیان کرتے ہیں ۔

’’میرا دماغ ہی الگ تھا ۔غریب سہی ،ہم میاں بھائی تو تھے ہی،پہلے ایک خاص بات بتا دوں کہ ہمارے گاؤں کے فاروقی لوگوں میں چار پانچ علامتیں پائی جاتی ہیں ۔ایک تو یہ کہ وہ سارے اچھے دکھتے ہیں ۔دوسرا یہ کہ وہ بہت ایماندار ہوتے ہیں ،تیسرا یہ کہ اپنے برابر کسی کو نہیں سمجھتے ہیں‘‘۔

(اعظم گڑھیوں کے لیے اس تیسری بات میں خاص کشش ہے ۔یہودیوں اور تمل براہمنوں کی طرح وہ بھی کسی کو اپنے برابر نہیں سمجھتے ہیں)

مختصرا اس کتاب میں ہر صاحبِ ذوق کے لیے تسکین کا سامان ہے ۔رضوان الدین فاروقی مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انکے توسط سے اردو داں طبقے کو اس بیش قیمت دستاویز سے فیض یاب ہونے کی سعادت نصیب ہو رہی ہے۔

zakabdullah1968@gmail.com

Recommended