ابوالبرکات شاذ قاسمی
تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن جگیراہان بتیا
ملک کے نامور عالم دین، دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ناظم ،آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر ،متعدد کتابوں کے مصنف ،بے شمار اکیڈمیوں کے روح رواں ،عظیم داعی، مبلغ، دانشور، مفکر، قائد اور رہبر حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی کا بالآخر ایک لمبی علالت کے بعد آج بتاریخ 13 اپریل 2023ءکو انتقال ہوگیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
حضرت مولانا رابع حسنی ندوی کی ولادت صوبہ اترپردیش کے ضلع رائے بریلی کے ایک علمی و دینی خانوادے میں 1929 کو ہوئی تھی آپ کے والد کا نام سید رشید حسنی تھا ابتدائی تعلیم اپنے خاندانی ادارے رائے بریلی میں ہی حاصل کی اس کے بعد اعلی تعلیم کی غرض سے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخل ہوئے جہاں سے 1948 میں فضیلت کی ڈگری حاصل کی فقہ و حدیث کی تعلیم کے پیش نظرازہر ہند دارالعلوم دیوبند میں بھی ایک سال گزارا اور بعد میں اسی غرض سے سعودی عرب کا بھی سفر کیا تعلیم مکمل کرنے کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء میں معین مدرس کی حیثیت سے اپنے تدریسی و علمی سفر کا آغاز کیا اور تادمِ حیات علم و ادب تصنیف و تالیف دعوت و تبلیغ کا کام کرتے رہے۔
سن 2002 عیسوی میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد متفقہ طور پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر بنائے گئے 1970ءکلیہ اللغہ کے ڈائریکٹر اور نائب مہتمم بنائے گئے مجلس تحقیقات و نشریات اسلام ، مجلس صحافت و نشریات اسلام کے اعلی عہدوں پر فائز رہے رابطہ عالم اسلامی کے رکن تاسیسی رہے آکسفورڈ سینٹر فار اسلامک اسٹڈیز آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ کے ٹرسٹی بھی رہے اسی کے ساتھ ساتھ آپ کا سلسلہ صحافت سے بھی ہمیشہ جڑا رہا چنانچہ مشہور عربی مجلہ الرائد کے بانی تھے پندرہ روزہ تعمیر حیات کے سرپرست اعلی تھے ہندی رسالہ سچا راہی اور انگریزی مجلہthe fragrance east کے لئے بھی کام کرتے رہے انہوں نے عربی کتابوں کے علاوہ اردو میں بھی درجنوں کتابیں یادگار چھوڑیں ہیں جن میں عصر جدید میں فقہ اسلامی، حج و مقامات حج ،جزیرۃ العرب کا جغرافیہ، مقامات مقدسہ، امت اسلامیہ اور اس کی ثقافت، دو مہینے امریکہ میں، سمرقند و بخارا کی بازیافت، دین و ادب، سماج کی تعلیم و تربیت ،غبار کارواں ،حالات حاضرہ، نقوش سیرت، عصر جدید میں فقہ اسلامی ،وغیرہ بے حد مقبول ہیں۔
علمی و فکری اعتبار سے حضرت مولانا رابع حسنی رحمۃ اللہ علیہ ؛ حضرت مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے سچے جانشین تھے جس طرح حضرت مولانا علی میاں ندوی نے پورے عالم اسلام میں ایک انقلاب برپا کرنے کی کوشش کیا ان کو مسلک و مذہب کے اختلاف سے نکال کر امت مسلمہ کی مفاد کی خاطر ایک کلمہ توحید کی بنا پر ایک ہونے کا پیغام دیا آپ کی تمام تر کاوشوں کا حاصل بھی یہی تھا چنانچہ اس مشن کو آگے بڑھانے کے لئے انہوں نے کتابیں تصنیف کیں مختلف علمی و اصلاحی کانفرنسوں اور جلسوں میں اپنی انقلابی فکر کرو پیش کیا انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کی دینی معاشرتی اصلاح کی کوشش کی ان کی نگاہ احتساب سے ہندی مسلمانوں کی زبوں حالی رہبران قوم کی سردمہری سیاستدانوں کی غلط پالیسیاں کیسے بچ سکتی تھیں انہوں نے قائدانہ طور پر سب کی اصلاح کی طرف توجہ دی حالات حاضرہ پر ان کی گہری نظر تھی انہوں نے مسلمانوں کی معاشرتی اور سماجی اصلاح کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت کا بھی فکر کیاان کی تمام تر دینی دعوتی علمی ادبی اصلاحی و فکری کارناموں کے ساتھ ساتھ ان کی بے مثال قیادت ان کی شخصیت کو عظیم تر بناتی ہے
توجہ دینے کی بات یہ بھی ہے کہ آج جب کہ پورے ملک میں مسلم قیادت کا بحران ہے مسلم مخالف سیاست کی ہوا چل رہی ہے مسلمانوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے انہیں ظلم و ستم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے شدت پسند ہندو تنظیمیں آر ایس ایس بجرنگ دل کے لوگ مسلم کشی پر لگے ہوئے ہیں مسلم گھرانوں میں تعلیم و تربیت کا فقدان ہے ہماری لڑکیاں بیٹیاں ارتداد کا شکار ہو رہی ہیں مغربیت سے متاثر ہوکر اپنا دین و مذہب کھو رہی ہیں ہمارے پڑھے لکھے نوجوانوں کو آئینی حقوق کی بازیابی کے لیے لب کھولنے کے پاداش میں جیل کی سلاخوں میں ڈالا جا رہا ہے آج جب کہ ہمارے بڑے بڑے علماء سیاسی قائدین سیاسی مفاد کے خاطر دنیا کی عارضی راحت و آسائش کی خاطر اپنے ضمیر کا سودا کر رہے ہیں پورے عالم اسلام پر جمود و تعطل کا بادل چھایا ہوا ہے ہمارے قبلہ اول مسجد اقصی میں یہودیوں کے ناپاک قدم جمے ہوئے ہیں معصوم فلسطینی رمضان المبارک کے بابرکت مہینے میں اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور پورا عالم اسلام تماشائی بنا ہوا ہے ایسے پر آشوب وقت میں ملت اسلامیہ سے خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں کے درمیان سے حضرت مولانا رابع حسنی ندوی میں جیسی عظیم شخصیت کا گزر جانا انتہائی افسوس ناک ہے یہ پوری دنیا کے لیے خاص طور سے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے ایک عظیم خسارہ ہے ۔
اللہ رب العزت ان کی بشری خطاؤں کو درگذر فرمائے لواحقین کو صبر جمیل عطا کرے اور ملت کو ان کا نعم البدل عطا کرے آمین یا رب العالمین۔