Urdu News

خدائےسخن میرکی عظمت کااعتراف ہرشاعر نےاورہرصاحب علم نےکیاہے:ڈاکٹرسیدتقی عابدی

ڈاکٹر سید تقی عابدی حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے

ایم پی اردو اکادمی کے ذریعے میر تقی میر کی حیات و خدمات پر سیمینار منعقد

مدھیہ پردیش اردو اکادمی محکمہ ثقافت کے زیر اہتمام سلسلہ کے تحت سہ صد سالہ جشن میر کے موقع پر ‘مستند ہے میرا فرمایا ہوا’ عنوان پر مبنی سیمینار بتاریخ 8 اپریل 2023 کو دو پہر 2 بجےاسٹیٹ میوزیم آڈیٹوریم ، شیاملہ ہلس ، بھوپال میں منعقد کیا گیا جس میں ملک و بیرون ملک کے ممتاز دانشوروں نے شرکت کی۔

اردو اکادمی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نصرت مہدی نے پروگرام کی شروعات میں مہمانان کا استقبال کرنے کے بعد پروگرام کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا:جیسا کہ ہم سبھی جانتے ہیں کہ اس وقت دنیا بھر میں اردو کے عظیم شاعر میر تقی میر کا سہ صد سالہ جشن منایا جارہا ہے۔

 مدھیہ پردیش اردو اکادمی کا آج کا یہ پروگرام بھی اسی سلسلے کی اہم کڑی ہے اور یہ پروگرام میر تقی میر کو موسوم ہے. اس پروگرام میں نئے تخلیق کار خصوصاً ریسرچ اسکالرز اور طلبا یہ جان سکیں گے کہ اردو شاعری میں میر تقی میر کو ‘خدائے سخن’ کیوں کہا جاتا ہے۔

میر کا مصرعہ مستند ہے میرا فرمایا ہوا پر مبنی متذکرہ پروگرام میں نوجوان نسل اردو کے اس  شاعر کی حصہ داری کو جان سکے گی اور یہ بھی جان سکے گی کہ اس شاعر کی عظمت کس وجہ سے ہے۔

 اسی لیے میر کی حیات و خدمات پر آج کے اس سیمینار کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں معروف دانشور اور ادیب ڈاکٹر تقی عابدی ۔ کینیڈا، ضیا فاروقی ۔ بھوپال اور عزیز عرفان ۔اندور خدائے سخن میر پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے ہیں۔

پروگرام کی صدارت کررہے ممتاز دانشور اور ادیب ڈاکٹر تقی عابدی نے اپنے خطبہ کی شروعات میں کہا کہ میں سب سے پہلے تو مدھیہ پردیش اردو اکادمی کو اس اہم پروگرام کے انعقاد کے لیے دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ ڈاکٹر عابدی نے میر کی سوانح ‘ذکر میر’کے حوالے سے کہا کہ میر تقی میر کی ابتدائی زندگی کے اثرات ان کی شاعری ہمیشہ نمایاں رہے ۔

 وہ چونکہ صوفی منش باپ بیٹے تھے پھر زندگی کے ہزار رنگ انھوں نے دیکھے، وہ سارے رنگ میر کے یہاں کسی نہ کسی سطح پر موجود ہیں. میر کی عظمت کا اعتراف خود ان کے عہد میں ان کے ہم عصروں نے بھی کیا ہے. اس سلسلے میں انھوں نے سودا کا حوالہ دیا کہ سودا بھی ان کے عظمت کے قائل تھے۔

انھوں نے ڈاکٹر نصرت مہدی کے میرکے اشعار میں تعلی کے  متعلق سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ میر کے یہاں جو تعلی کے اشعار ہیں ان کے اندر بھی معنی کی تہہ داری اور خود اعتمادی ہے. ڈاکٹر تقی عابدی نے درج ذیل شعر کے سلسلے میں کافی تفصیل سے گفتگو کی.

نازکی اس کی لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

بھوپال کے بزرگ ادیب اور شاعر ضیا فاروقی نے میر کی شاعرانہ عظمت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ میر کے شعروں میں زندگی کا ہر رنگ موجود ہے ۔ کہیں غم زمانہ کے رنگ ہیں اور کہیں غم جاناں کے۔ ان کے شعر  لاکھ خواص پسند ہوں ان کی گفتگو بہرحال عوام سے عملاً بھی رہی ہے. چنانچہ عوام کی دلچسپی کے لیے انھوں نے ان موضوعات کو بھی شعری قالب میں ڈھالا ہے جن سے عام عوام کے جذبات و احساسات کی ترجمانی ہوسکے۔

اندور سے تشریف لائے سینئر ادیب ڈاکٹر عزیز عرفان نے میر کے شعری رویوں پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میر کا تخیل زمینی ہے اور انھیں روزمرہ کی زندگی اور اس کے واقعات سے بہت شغف ہے۔میر انسانی فطرت، اس کی پیچیدگیوں، محرومیوں، حسرتوں، ناآسودگیوں اور نارسائیوں کے بے نام جزیروں سے گزرتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔میر کا جادو ہمیں ہمہ وقت بے کل بھی رکھتا ہے اور ہیبت زدہ بھی۔ہم جابجا دل شکستہ بھی ہوتے ہیں اور اک نامعلوم سی توانائی بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں۔

پروگرام کی نظامت کے فرائض محمود ملک نے بحسن خوبی انجام دیے. اس موقع پر جشن اردو میں اوپن مائیک محفل میں اپنی نگارشات پیش کرنے والے تخلیق کاروں کو سرٹیفکیٹ بھی دیے گئے ۔

پروگرام کے آخر میں ڈاکٹر نصرت مہدی نے تمام شرکاء کا شکریہ ادا کیا۔

Recommended