ساتویں دہائی کے مشہور افسانہ و ناول نگار شموئل احمد اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ایک اچھا اور سچّا تخلیق کار ہم لوگوں کا اب ساتھ چھوڑ چکا ہے۔ اپنے انداز کے نرالے اور بے باک افسانہ نگار شموئل احمد نے آج صبح دہلی میں آخری سانس لی۔ ایک عرصے سے بیمار تھے۔ لیور کینسر کی بیماری میں مبتلا تھے۔
شموئل احمد 4 مئی 1945 کو بھاگلپور میں پیدا ہوئے۔سول انجینیرنگ کی ڈگری حاصل کی اور حکومت بہار کے شعبہ پبلک ہیلتھ انجینیرنگ میں چیف انجینئر کے عہدے سے ریٹایر ہوے۔انہیں بہترین فکشن نگاری کے لیے عالمی فروغ اردو ادب دوحہ ، قطر 2012کے انعام سے نوازا گیا ہے۔
شموئل احمد پٹنہ کے پاٹلی پترا میں مقیم ہوگئے۔ انہیں بچپن ہی سے ادبی ذوق تھا، چھٹی ساتویں جماعت ہی سے طبع آزمائی کرنے لگے لیکن باضابطہ اشاعت کا سلسلہ1970 کے آس پاس شروع ہوا جو چار پانچ سال تک چلتا رہا اس کے بعد چار پانچ سال تک خاموشی رہی، اس کے بعد پھر لکھنا شروع کیا جو ہنوز جاری تھا، اب تک ان کی تیس کہانیاں شائع ہوچکی ہیں۔
ایک افسانوی مجموعہ بگولے،1988 میں شائع ہوا۔ وہ دو جنس کی نفسیات کو اپنی کہانیوں کا موضوع بناتے ہیں ساتھ ہی ساتھ استحصال اور جبروتشد دکی عکاسی کرتے ہیں کبھی کبھی ذات کی تلاش میں بھی گم ہوجاتے ہیں وہ آج کے نظام ہی کو استحصال اور کرپشن کی وجہ بتاتے ہیں چوں کہ ان کا تعلق صحافت سے بھی ہے اس لیے زبان وبیان پر بہت حد تک گرفت مضبوط ہے،1980 کے بعد اردو افسانے نے پھر افسانوی رنگ اختیار کیا ہے اس سے وہ بہت خوش تھے حالانکہ وہ خود بھی کچھ کہانیوں میں تجربے کے شکار ہوگئے ہیں۔ اردو کے علاوہ ہندی میں بھی کہانیاں لکھتے تھے وہ وقت اور حالات سے سمجھوتہ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
سنگھار دان جیسی کہانی کے خالق شموئل احمد اپنے منفرد اسلوب اور بے باک لہجے کے لئے جانے جاتے ہیں۔ ان کے ہر افسانے میں ایک نیاتجربہ اور نئی حسسیت کار فرما نظر آتی ہے۔شموئل صرف جنس کی نفسیات پر ہی گہری نظر نہیں رکھتے بلکہ عصری اور سیاسی مسایل کو تمام پختگی سے پیش کرنے کا فن جانتے ہیں۔
ان کا دلکش اسلوب فنی رویہ اور تخلیقی مزاج انہیں اپنے ہم عصروں سے الگ کرتا ہے’’عنکبوت ‘‘’’ اونٹ‘‘’’ ظہار‘‘ اور’’ سنگھار دان ‘‘ جیسی کہانیاں شموئل کے قلم سے ہی نکل سکتی تھیں۔شموئل احمد کو علم نجوم سے گہرا شغف ہے۔ انہوں نے علم نجوم کی اصطلاحوں کا بہت تخلیقی اظہار’’مصری کی ڈلی ‘‘ چھگمانس‘‘ اور القمبوئس کی گردن ” جیسی کہانیوں میں کیا ہے۔شمویل ہندی زبان میں بھی یکساں قدرت سے لکھتے تھے۔