اعجاز زیڈ ایچ
آج – 08؍جنوری 1939اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے نوکلاسیکی لہجے کے لیے معروف شاعر عرفانؔ صدیقی صاحب کا یومِ ولادت ہے۔
نام عرفا ن صدیقی، ٨؍جنوری ۱۹۳۹کو بدایوں میں پیدا ہوئے۔ بریلی کالج، آگرہ یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی۔۱۹۶۲میں وزارت اطلاعات ونشریات کی مرکزی اطلاعاتی سروس سے وابستہ ہوگئے۔ ملازمت کے سلسلے میں دلی، لکھنؤ وغیر ہ قیام رہا۔یہ نیاز بدایونی کے چھوٹے بھائی تھے۔۔ ا ن کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’کینوس‘، ’عشق نامہ‘، ’شب درمیاں‘، ’سات سماوات‘ (مجموعہ شاعری)۔ اس کے علاوہ دو تین کتابیں ابلاغ و ترسیل وغیرہ سے متعلق موضوعات پر شائع ہوئیں۔
عرفان صدیقی، ١٥؍اپریل ٢٠٠٤کو لکھنؤ میں انتقال کر گئے ۔
معروف شاعر عرفانؔ صدیقی کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت۔۔۔
بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے
اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے
—
اٹھو یہ منظر شبِ تاب دیکھنے کے لیے
کہ نیند شرط نہیں خواب دیکھنے کے لیے
—
رات کو جیت تو پاتا نہیں لیکن یہ چراغ
کم سے کم رات کا نقصان بہت کرتا ہے
—
بدن کے دونوں کناروں سے جل رہا ہوں میں
کہ چھو رہا ہوں تجھے اور پگھل رہا ہوں میں
—
ہوشیاری دلِ نادان بہت کرتا ہے
رنج کم سہتا ہے اعلان بہت کرتا ہے
—
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
—
سر اگر سر ہے تو نیزوں سے شکایت کیسی
دل اگر دل ہے تو دریا سے بڑا ہونا ہے
—
میرے ہونے میں کسی طور سے شامل ہو جاؤ
تم مسیحا نہیں ہوتے ہو تو قاتل ہو جاؤ