آج ۔ 18؍اکتوبر 2008
ہندوستان کے ممتاز ترین معروف شاعر ”#شاعرؔ_جمالی_بہرائچی صاحب“ کا یومِ وفات…..
نام #سید_نظرالحسنین اور تخلص #شَاعرؔ تھا۔
ان کے والد کا نام سید شوکت علی اور و الدہ کا نام حامدہ بیگم ہے۔ شاعرؔ جمالی کی پیدائش 15؍جون 1943ء کو شہر بہرائچ کے مردم خیز محلہ، قاضی پورہ میں ہوئی۔ آپ نے ایم ۔اے (اردو) تک کی تعلیم حاصل کی اور جونپور میں محکمہ صحت میں ہیلتھ سپر وائزر ہوئے اور جونپور سے ہی رٹائر ہوئے۔ شاؔعر جمالی کی زندگی کا زیادہ حصہ جونپور میں ہی گزرا۔ ’’شاعر اور ادیب شارق ربانی کا کہنا ہے کہ شاؔعر جمالی بہترین غزلیں کہتے تھے اور اردو ادب کی باکمال شخصیت تھے۔‘‘ شاعرؔ جمالی کو ان کے شعری مجموعہ ’’#لہجہ‘‘ پر اردو اکادمی ایوارڈ مل چکا ہے اور ادبی خدمات کے لئے انہیں ’’پوروانچل رتن اعزاز‘‘ نذیر بنارسی ایوارڈ اور آل انڈیا کامل ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
#شاعرؔ_جمالی 18؍اکتوبر 2008ء کو ایک آل انڈیا مشاعرے سے واپس اپنے گھر جاتے وقت فیض آباد ریلوے اسٹیشن پر انتقال کر گئے۔ اور تدفین نانپارہ ضلع بہرائچ میں ہوئی، جس میں کثیر تعداد میں مقامی اور بیرونی ادبی شخصیات نے بھی شر کت کی تھی۔
شاعرؔ جمالی صاحب کے تین شعری مجموعے ہیں۔ کرب، صحیفہ اور لہجہ۔
#بحوالہ_ویکیپیڈیا
✨🌹 پیشکش : شمیم ریاض
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
💫🍁 ممتاز شاؔعر جمالی صاحب کے یوم وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت… 🍁💫
ہم نے خوشبو کے بند کھول دیۓ
اب ہوا تیری ذمہ داری ہے
—-
اس کا خط خود مجھ کو پڑھنے لگتا ہے
اس کے ایک ایک لفظ میں آنکھیں ہوتی ہیں
—-
سفید پوش بھکاری غریب لوگوں سے
کچھ اور چیز نہیں تخت و تاج مانگتا ہے
—-
وہ ایک بشر تھا مگر نور ہو گیا وہ شخص
کہ جب حیات کا دستور ہو گیا وہ شخص
ابھی تو میں نے ستائش کی ابتدا کی تھی
ابھی سے کس لیے مغرور ہو گیا وہ شخص
تھا جس کو ناز بہت اپنی دستگیری پر
سنا ہے ہاتھوں سے معذور ہو گیا وہ شخص
ستم نے بظاہر اس کو تباہ کر ڈالا
ستم کے سینے کا ناسور ہو گیا وہ شخص
وہ اتنی تیز اجالوں کی سمت بھاگا تھا
کہ تھک کے بیٹھا تو بے نور ہو گیا وہ شخص
یہ سایہ دار درختوں کا فیضِ صحبت تھا
پڑی جو دھوپ تو کافور ہو گیا وہ شخص
تمام عمر وہ میری مخالفت میں رہا
بس اتنی بات پہ مشہور ہو گیا وہ شخص
🛑🚥💠➖➖🎊➖➖💠🚥🛑
سر جو میرا اب تمہارے پتھروں کی زد پہ ہے
سن رہا ہوں اس کا بھی الزام میرے قد پہ ہے
کون ظالم کون ہے مظلوم اس کا فیصلہ
حشر میں ہوگا مگراب حشر کی آمد پہ ہے
آسماں سے پھر لہو کی بارشیں ہونے کو ہیں
اک کبوتر آج پھر بیٹھا ہو ا بر گد پہ ہے
لاش اس کی کھا گئے مل جل کے کالے بھیڑئے
اور اسکی ماں سمجھتی ہے کہ وہ سر حد پر ہے
اپنے اندر جھانکنے کی ان کو فرصت ہی کہاں
جن کی چشم معتبر دنیا کے نیک و بد پہ ہے
جنگ کس نے جیت لی اور ہوگئی کس کو شکست
انحصار اس فیصلے کا جنگ کے مقصد پہ ہے
اب مجھے سچائی کی عظمت کا اندازا ہوا !!
اب مری گردن یزیدی خنجروں کی زد پہ ہے
دیکھئے تو ساری دنیا ہی مہذب ہو چکی
سوچئے تو یہ ابھی تہذیب کی ابجد پہ ہے
تاجروں نے اس کا سون لے لیا مٹی کے مول
بحث فنکاروں میں اب تک اسکے خال و خد پہ ہے
میرے لہو سے شرافت کبھی نہ جائیگی
یہ خاندانی روایت کبھی نہ جائیگی
مجھے غلام بناکر وہ کس قدر خوش ہے
کہ جیسے اسکی حکومت کبھی نہ جائیگی
—-
فـلک کو رنگ بدلنے میں دیر لگتی نہـیں
زمین پر بھی نظر اپنی ہر اڑان میں رکھ
خبر نہیں تجھے کب چھوڑنا پڑے ساحل
ہوا کو باندھ کے تو اپنے بادبان میں رکھ
شاعرؔ جمالی
انتخاب : شمیم ریاض
Shameem Riyaz