ڈاکٹر جہاں گیر حسن
اعظم چاچا! کل میرے گھر میں افطاری ہے، قریباً پچاس احباب ہوں گے، مجھے پکوڑے چاہیے، آپ کو اڈوانس کتنے پیسے دے جاوں؟ چاچا جان نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور مسکرا پڑے۔ “کتنے پیسے دے سکتے ہو؟” مجھے ایسے لگا، جیسے چاچا جان نے میری توہین کردی ہو، مجھے ایک عرصے سے جانتے ہوئے بھی ان کا یہ سوال بے محل اور میرے لیے تضحیک آمیز تھی، میں نے اصل قیمت سے زیادہ پیسے نکالے اور چاچا جان کے ہاتھ پر رکھ دیے۔
چاچا جان نے پیسے اٹھائے اور مجھے دیتے ہوئے بولے، سامنے سڑک کے اس پار اس بوڑھی عورت کو دے دو، کل آ کر اپنے سموسے پکوڑے لے جانا، میری پریشانی تم نے حل کر دی، افطاری کا وقت قریب تھا اور میرے پاس اتنے پیسے جمع نہیں ہو رہے تھے کہ اسے دے سکتا، اب بے چاری چند دن سحری اور افطاری کی فکر سے آزاد ہو جائے گی۔ میرے جسم میں ایک ٹھنڈی سی لہر دوڑ گئی۔
وہ کون ہے آپ کی؟؟ میرے منھ سے بے اختیار نکلا۔ چاچا جان تپ گئے، وہ میری ماں ہے، بیٹی ہے اور بہن ہے۔ تم پیسے والے کیا جانو، رشتے کیا ہوتے ہیں، جنھیں انسانیت کی پہچان نہیں رہی انھیں رشتوں کا بھرم کیسے ہو گا؟ پچھلے تین گھنٹے سے کھڑی ہے، نہ مانگ رہی ہے اور نہ کوئی دے رہا ہے۔ تم لوگ بھوکا رہنے کو روزہ سمجھتے ہو اور پیٹ بھرے رشتےداروں کو افطار کرا کے سمجھتے ہو ثواب کمالیا۔ “اگر روزہ رکھ کے بھی احساس نہیں جاگا تو یہ روزہ نہیں، صرف بھوک ہے بھوک۔”
میں بوجھل قدموں سے اس بڑھیا کی طرف جا رہا تھا اور سوچ رہا تھا، اپنے ایمان کا وزن کر رہا تھا، میرے ہاتھ میں پیسے میرے نہیں تھے غریب پکوڑے والے کے تھے، میرے پیسے تو رشتوں کو استوار کررہے تھے۔ چاچا جان کے پیسے اللہ کی رضا کو حاصل کرنے جارہے تھے۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس بڑھیا میں ماں، بہن اور بیٹی مجھے کیوں دکھائی نہیں دی؟
بظاہر یہ ایک چھوٹی سی عام کہانی ہے اور چند لفظوں کا تانا-بانا ہے لیکن اس کے اندر جھانکنے پر احساس ہوتا ہے کہ ہم کتنے مکروہ اور کس قدر ظاہری پرست دنیا میں رہتے ہیں جہاں نام و نمود والی شہرت اور دکھاوے والی عزت و مقام ہی ہمارے لیے سب کچھ ہے۔ رمضان کے مہینے میں جس قدر ہمارے صاحبان ثروت اخراجات کرتے ہیں وہ اکثر و بیشتر اسراف کے حدود میں پہنچ جاتے ہیں۔
اجتماعی افطاری پارٹیوں کا جائزہ لیا جائے تو پچاس فیصد اشیائے خوردنی ضائع ہوجاتی ہیں اور ایک نیک و مبارک ماحول بالکل اس فیشن زدہ پارٹیوں میں تبدیل ہوجاتا ہے جہاں کھانے سے زیادہ اشیائے خوردنی کو برباد کیا جاتا ہے۔ افطار پارٹیوں کے اختتام کے بعد حلال و بابرکت اشیا، جیسے پکوڑے، سمو سے، چنے، پھل وغیرہ کی وہ درگت بنتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ لیکن مجال ہے کہ امیروں کی افطار پارٹیوں میں کسی غریب و مسکین کو مدعو کردیا جائے۔ بلکہ حد تو یہ ہمارے امیر طبقات بالالتزام انھیں کے گھر سے افطار کا لین-دین بھی کرتے ہیں جو ایک دوسرے کے ہم پلہ ہوتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کسی کو بھی اشیائے افطار کے اس لین دین سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ کیوں کہ وہ ان اشیا کی دستیابی اور حصولیابی پر بخوبی طاقت و قدرت رکھتے ہیں۔
اس لیے ہمارے امیر طبقات کو اس طرح ہم پلہ سے لین-دین کی بجائے انھیں ایسے گھروں کو تلاش کرنا چاہیے اور ان گھروں تک اشیائے افطاری بھجوانی چاہیے جن کے پاس اشیائے افطار خریدنے کی سکت نہیں ہوتی اور جو اس کے لیے کہیں دست سوال بھی دراز نہیں کرپاتے ہیں۔ بالخصوص مارکیٹ جاتے وقت اور اشیائے افطار کی خریداری کے وقت وہاں کے ماحول کا اک سرسری جائزہ لینا چاہیے کہ کہیں کوئی ایسا حاجت مند تو نہیں تو مانگ نہیں سکتا۔
سوال کرنے کی ہمت نہیں جٹا پاتا۔ اگر کوئی عورت ہے تو اس کو ماں، بہن اور بیٹی کی نگاہ سے دیکھا جائے اور کوئی مرد ہے تو اسے باپ، بھائی اور بیٹے کی نظر سے دیکھا جائے تو ہمیں یقین ہے کہ ہمارے اندر پوشیدہ طور پر رہ رہے بہت سے محتاجین و مساکین مل جائیں گے اور اس طرح ایک بڑا کام ہوگا جس کا مطالبہ اللہ و ر سول نے اپنے بندوں سے سے فرمایا ہے۔
اس کے علاوہ اگر اپنے گاؤں محلے میں آس-پاس پر نظر رکھی جائے تو بھی بہتیرے گھر ایسے ملیں گے جو رمضان کے دنوں میں اشیائے افطار مثال کے طور پر پھل فروٹ اور دیگر مقویات کے لیے ترس جاتے ہیں۔ بوجہ مجبوری ان کا افطار رمضان کے دنوں میں بھی وہی ہوتا ہے کہ جو عام دنوں میں وہ کھاتے پیتے ہیں۔ جب کہ اس کے برخلاف ہمارے امیر طبقات اپنے لیے پورے رمضان میں بہترین اشیائے خوردنی کی روٹین بنالیتے ہیں کہ سحری میں کیا کھانا ہے۔ افطار میں فلاں دن کیا بننا چاہیے اور فلاں دن کیا وغیرہ۔ ان کا یہ روٹین بالکل غلط نہیں۔
لیکن یہ اس وقت غلط ہوجاتا ہے جب خود تو فراوانی کے ساتھ کھاتے ہیں اور اپنے اس-پاس کے محتاجین کا بالکل خیال نہیں رکھتے اور ان جذبات کا احساس و قدر نہیں کرتے۔ لہذا امیر طبقات کی طرف سے رمضان کے روزانہ کی روٹین میں سے محض دس فیصد بھی محتاجین و مساکین پر خرچ کرنے کا مزاج بنالیا جائے تو ہمارے درمیان شاید ہی کوئی رمضان کے دنوں میں تنگی محسوس کرسکے۔ بلکہ انتہائی خوشی خوشی سب کے ایام روزہ بھی گزر جائیں گے اور اس سے جہاں ایک سماجی ضرورت پوری ہوگی وہیں آپسی ہمدردی کو فروغ ملےگا جو رمضان و روزہ کا اہم مقصد اور پیغام ہے۔
نیز یہ بھی یاد رہے کہ روایات میں افطاری کرنے کرانے اور رمضان میں اپنے بھائیوں کا خیال رکھنے پر بالخصوص جو اجر و ثواب مرتب ہوتے ہیں ان کے بھی وہ بخوبی حقدار و مستحق ہوں گے۔ کیوں کہ روزہ محض بھوکے اور پیاسے رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ محتاجین و مساکین کے دکھ درد کے احساس کا نام بھی ہے۔ اگر روزہ رہتے ہوئے محتاجین و مساکین کے دکھ درد کا احساس نہیں ہوتا اور اس کے ساتھ ہی اس کا عملی اظہار نہیں ہو پاتا تو یقین سے جان لیا جائے کہ ہمارے روزے کی فرضیت تو ادا ہوجائےگی اور بروز قیامت فرض روزے کے حساب و کتاب سے بچ جائیں گے لیکن رمضان و روزہ کی جو روحانیت ہے اور اس کے سبب جس تقوی و طہارت کے حصول کی بات کی گئی وہ ہرگز حاصل نہیں ہوگا۔
بلکہ یہ ازبر رہے کہ جب عام دنوں میں بھوکوں کو کھلانا اور پیاسوں کو پلانا اللہ رب العزت کو کھلانا اور پلانا تو رمضان کے دنوں میں اس کا اجر و ثواب کیا ہوگا۔ مزید حدیث قدسی میں آیا ہے جس مفہوم یہ ہے کہ روزہ اللہ کے لیے ہے اور اللہ اپنے دست خاص سے روزے کا بدلہ عطا فرماتا ہے۔ چناں چہ روزہ کا بدلہ اللہ کے دست خاص سے لینے کے لیے لازم ہے کہ رمضان اور روزہ اللہ کی مرضی کے مطابق بسر کیا جائے۔