اعجاز زیڈ ایچ
آج – 19؍فروری 1999مقبول عام شاعر،فلم نغمہ نگار،باکمال،صاحبِ طرز غزل گو اور ممتاز شاعرخماؔربارہ بنکوی صاحب کایومِ وفات ہے۔
نام محمد حیدرخاں اور تخلص خمارؔ تھا۔ ۱۹؍ستمبر ۱۹۱۹ کو بارہ بنکی (اودھ) میں پیدا ہوئے۔ اردو اور فارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی۔اس کے بعد انگریزی اسکول میں داخلہ لیا۔
انٹرمیڈیٹ میں تھے کہ ایک نہایت لطیف حادثے سے دوچار ہوگئے اور سلسلہ تعلیم ترک کردیا۔ تقریباً پندرہ سولہ برس کی عمر سے شعر موزوں کرنے لگے۔
ابتدا میں کچھ دنوں قرارؔ بارہ بنکوی کو کلام دکھایا، لیکن بعد میں اپنے ذوقؔ سلیم کو رہبر بنایا۔ ۱۹؍فروری ۱۹۹۹ کو بارہ بنکی میں انتقال کرگئے۔ ان کا ترنم بہت اچھا تھا۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:
’حدیثِ دیگراں‘، ’آتِش تر‘، ’رقصِ مے‘۔
بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:103
ممتاز شاعر خمارؔ بارہ بنکوی صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔
بھولے ہیں رفتہ رفتہ انہیں مدتوں میں ہم
قسطوں میں خود کشی کا مزہ ہم سے پوچھیئے
—
دعا یہ ہے نہ ہو ں گمراہ ہم سفر میرے
خمار ؔ میں نے تو اپنا سفر تمام کیا
—
اب ان حدود میں لایا ہے انتظار مجھے
وہ آ بھی جائیں تو آئے اعتبار مجھے
—
ایسا نہیں کہ ان سے محبت نہیں رہی
جذبات میں وہ پہلی سی شدت نہیں رہی
—
دشمنوں سے پشیمان ہونا پڑا ہے
دوستوں کا خلوص آزمانے کے بعد
—
گزرے ہیں میکدے سے جو توبہ کے بعد ہم
کچھ دور عادتاً بھی قدم ڈگمگائے ہیں
—
مجھے تو ان کی عبادت پہ رحم آتا ہے
جبیں کے ساتھ جو سجدے میں دل جھکا نہ سکے
—
حد سے بڑھے جو علم تو ہے جہل دوستو
سب کچھ جو جانتے ہیں وہ کچھ جانتے نہیں
—
حیرت ہے تم کو دیکھ کے مسجد میں اے خمارؔ
کیا بات ہو گئی جو خدا یاد آ گیا