Urdu News

فلم کہانی نویس،ہدایت کار،نقاداورممتاز ترقی پسند شاعر ظہیرؔ کاشمیری

شاعر ظہیرؔ کاشمیری

اعجاز زیڈ ایچ

آج 12؍دسمبر 1994کالم نگار، فلم کہانی نویس، ہدایت کار، نقاد اور ممتاز ترقی پسند شاعر ظہیرؔ کاشمیری صاحب کا یومِ وفات ہے۔

نام پیرزادہ غلام دستگیر ظہیر Zaheerاور تخلص ظہیرؔ تھا۔ ۲۱؍اگست۱۹۱۹ کو امرتسر میں پیدا ہوئے۔ کشمیر ان کا آبائی وطن تھا۔انگریزی میں ایم اے کیا۔ گیارہ برس کی عمر سے شعر گوئی کی ابتدا ہوگئی تھی۔

تقسیم ہند سے قبل ہی لاہور آگئے تھے۔ابتدا میں فلمی دنیا میں ادبی مشیر کی خدمات انجام دیں۔ ۱۹۵۹ میں روزنامہ ’احسان‘ میں ’مجنوں‘ کے نام سے کالم لکھتے رہے۔ ’’سویرا‘‘ کی ادارت بھی کی۔فلم ’’تین پھول‘‘ کی کہانی لکھی اور خود ہی ہدایت کاری بھی کی۔ روزنامہ ’’مساوات‘‘ لاہور سے بھی ظہیرؔ کاشمیری وابستہ رہے۔

 ۱۲؍دسمبر۱۹۹۴ کو لاہور میں انتقال کرگئے۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:

’عظمتِ آدم‘، ’تغزل‘، ’چراغِ آخر شب‘، ’رقصِ جنوں‘،’اوراقِ مصور‘،’ادب کے مادی نظریے‘۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:102

معروف شاعر ظہیرؔ کاشمیری کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطورِ خراجِ عقیدت۔۔۔

آہ یہ مہکی ہوئی شامیں یہ لوگوں کے ہجوم

دل  کو  کچھ  بیتی  ہوئی  تنہائیاں   یاد  آ گئیں

—–

 بڑھ گئے ہیں اس قدر قلب و نظر کے فاصلے

ساتھ  ہو  کر  ہم سفر  سے  ہم سفر ملتے نہیں

—–

برق  زمانہ  دور تھی  لیکن مشعل خانہ  دور  نہ تھی

ہم تو ظہیرؔ اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے

—–

دل بھی صنم پرست نظر بھی صنم پرست

اس  عاشقی  میں  خانہ  ہمہ  آفتاب     تھا

—–

فرض  برسوں  کی  عبادت  کا  ادا   ہو جیسے

بت کو یوں پوج رہے ہیں کہ خدا ہو جیسے

—–

ہمارے پاس کوئی گردشِ دوراں نہیں آتی

ہم اپنی عمرِ فانی ساغر و مینا میں رکھتے ہیں

Recommended