Urdu News

غدار کا خطاب

آفتاب سکندر

آفتاب سکندر

ڈھونڈنے سے خدا بھی مل جاتا ہے اس بات میں کتنی صداقت ہے اس بات کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ اہلِ خرد جمہوری روایت کی پاسداری میں مان رہا ہوں فرماتے ہیں مت ڈھونڈنا نہیں تو گمراہ ہو جاؤں گے بہرکیف یہ جملہ نایاب، کم یاب اور نادر بیش قیمت اشیاکے لیے استعمال ہوتا ہے اس کے برعکس وہ شعر جو بیچارے غالب نے کبھی کہا ہی نہیں اور اگر کوئی عالمِ برزخ ہوا تو وہاں سے غالب بیچارہ یہ شعر سن کر دعائیں ہی دیتا ہوگا ریختہ والے خیر بضد ہیں اس کو شعر ہی نہیں مانتے۔

پاگلوں کی کوئی کمی نہیں

ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں

یہ ایسی اشیاء کے لئے استعمال ہوتا ہے جن کی بہتات ہوں فراوانی ہوں. خداداد چیزوں میں ایک مملکتِ خداداد پاکستان بھی ہے جس میں قدرتی وسائل کی بہتات کے ساتھ ہر شے کی بہتات ہے بس نام پکاریں اور گوگل رزلٹ کی طرح فَٹ سے مل جائے گی۔ یہاں تجزیہ کاروں کی بہتات ہے اسرائیلی، یہودی ایجنٹوں کی بہتات ہے غداروں کی بھی کوئی کمی نہیں۔

غدار کی کوئی مفصل تعریف نہیں البتہ سننے کو ملتا ہے کہ مودی کا جو یار ہے غدار ہے یا پھر قادیانیوں کا جو یار ہے غدار ہے بیچارہ لاکھ کہے کہ میں مودی سے کبھی نہیں ملا. قادیانیوں کو نہیں جانتا مگر بس عہدے سے سبکدوشی مشکل ہے۔میں نے سوچا کہ ابتدا میں چلتے ہیں کہ دیکھتے ہیں کہ کیسے کیسے غدارانِ وطن نے جنم لیا ہے جنم بھُومی پر تو بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح جو بانی پاکستان ہیں اُن کو کافراعظم کا خطاب مل چکا ہے یعنی بابائے قوم مطلب ابو جان فتویٰ کی زد میں آچکے ہیں تو مادرِ ملت فاطمہ جناح بھی مقدس گائے کے سایہ شفقت میں  باقاعدہ کتیا کے گلے میں لالٹین ڈال کر پورے فوجی اعزاز کے ساتھ غدار قرار دی جا چکی ہیں۔ یعنی مادرِ ملت مطلب امی جان بھی اس لقب سے فیض یاب ہیں۔بے دردی سے قتل ہونے والے قائدِ ملت نواب لیاقت علی خان کی زوجہ محترمہ بیگم رعنا لیاقت علی خان کو طوائف کے لقب سے نوازا گیا یعنی قائد ملت مطلب رہنما راستہ دکھانے والا اُن کی زوجہ محترمہ طوائف ٹھیک ہوگیا۔23 مارچ کو سرحد کی بجائے حد پار کرنے والے سر جس قرار داد کے لئے کروڑوں اربوں روپے کا میلہ لگاتے ہیں وہ قرارداد پیش کرنے والے شیرِ بنگال مولوی فضل الحق بھی غدار کا لقب پا چکے ہیں. جب پہلے وزیراعظم، پہلے گورنر جنرل نے کسبِ فیض کیا ہے تو پھر قیام پاکستان کے بعد پہلے مسلم لیگ کے صدر خواجہ نظام الدین کیوں پیچھے رہتے 1964 عیسوی میں وہ بھی غدار کا درجہ پا گئے۔

مملکتِ خداداد کو نام دینے والے چوہدری رحمت علی نے بھی جلا وطنی کاٹ کر یاد تو کیا ہوگا کہ اچھا نام دیا ہے پاک سرزمین والا پاکستان شاید میرا سامان پاک تھا جو ضبط کرلیا اور وجود ناپاک جو باہر باہر کارگو کروا دیا ۔جب محسنین نے خود کسبِ فیض کیا تو پھر اُن کی آنے والی نسلیں بیچاری کیسے محروم رہ سکتی تھیں.

مسلم لیگ جو آگے چل کر ن، ق، عوامی، آل پاکستان اور پتہ نہیں کن کن حصوں میں بٹ گئی اس کی بنیاد پر رکھنے والے بانی مسلم لیگ نواب محسن الملک کے نواسے نے سر والوں کے جنرل ایوب خان سے اذیتیں سہہ کر قتل ہو کر قیمت ادا کی. جس طرح بانی پاکستان کا نواسہ بانی بحریہ ٹاؤن کے وظیفے پر پل کر کہتا تو ہوگا کہ شکر ہے نانا جان نے پاکستان کی بنیاد رکھی تھی نہیں تو ملک ریاض جیسا شخص متحدہ ہندوستان میں کہاں ملنا تھا۔ نواسوں کے بعد پوتوں کے بھی حقوق ہوتے ہیں تو مسلم لیگ کے تیرھویں صدر مولانا حسرت موہانی کے پوتے نے 1995 عیسوی میں دہشت گرد کا خطاب حاصل کرکے اپنی جان پیش کی۔ امیر الدین قدوائی جنھوں نے قومی پرچم کو ڈیزائن کیا اور اپنے ڈیزائن میں اقلیتوں کے حقوق بھی رکھے. ان کے پوتے نے حال ہی میں بیس ماہ ٹارچر سیل میں گزار کر یاد کیا کہ ڈیزائن کیسا تھا۔

جب پوتے قربانیاں دے سکتے ہیں تو کیا بیٹوں کا کوئی حق نہیں جی تو غازی علم الدین کے مذہبی پروپیگنڈہ میں شریک ایم ڈی تاثیر جو تحریک پاکستان کا حصہ تھے اُن کے بیٹے نے بطور گورنر پنجاب  غریب مظلوم مسیحی عورت کے حق میں آواز بلند کی اور ستائیس گولیاں کھا کر اپنا حساب چُکتا کروایا۔ اسی طرح ہماری نصابی کتاب جو ہمیشہ سرحد کے رکھوالوں کی طرح سچ لکھتی ہے وہ قاضی عیسٰی کو قائداعظم کا ساتھی اور محب وطن لکھتی ہے۔ آج اُن کے بیٹے قاضی فائز عیسی غدار قرار دئیے جا چکے ہیں۔اب اگر کوئی غدار کہے تو پریشان مت ہونا یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔

Recommended