Urdu News

پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین کے نام پر نسل کشی اور مظالم آخر کب تک؟ کیا پاکستان میں اقلیت محفوظ ہیں؟

پاکستان میں توہین رسالت کے قوانین کے نام پر نسل کشی اور مظالم آخر کب تک؟

نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ  ’’معاشرے کی روح کے بارے میں اس کے بچوں کے ساتھ جس طرح سلوک کیا جاتا ہے اس سے زیادہ کوئی دل چسپ انکشاف نہیں ہوسکتا‘‘۔ رواں سال جولائی کے آخر میں ، ایک آٹھ سالہ ہندو لڑکا جو غلطی سے پنجاب کے ضلع رحیم یار خان کے علاقہ’ بھونگ‘ کے   ایک مدرسہ میں داخلہ لے لیا تھا،پاکستان میں وہ ہندو لڑکا  توہین رسالت کے قوانین کا سب سے کم عمر میں نشانہ بنا۔ یہ پاکستان کی اقلیتوں اور اس کے بچوں کے ساتھ نسل کشی کی ایک نمایاں مثال ہے۔ ہم یہ خط پاکستان میں اقلیتوں کی نسل کشی جیسی صورت حال سے آگاہی اور توجہ دلانے کے لیے لکھ رہے ہیں۔

2019 تک پاکستان نے 4600 سے زائد قیدیوں کو سزائے موت دی ہے جو دنیا کی بڑی آبادی کا ایک حصہ ہے۔پاکستانی قانون قتل،عصمت دری ، غداری ، دہشت گردی اور توہین رسالت کی بعض کارروائیوں سمیت 28 جرائم میں  سزائے موت کا حکم دیتا ہے۔سوشل میڈیا پروائرل  تصاویر  میں دکھایا گیا ہے کہ مشتعل ہجوم نے گزشتہ ہفتے لوہے کی سلاخوں اور لاٹھیوں سے مندر پر حملہ کردیا اور مندر کو کافی نقصان پہنچایا گیا۔  نئی دہلی میں ، ہندوستان کی وزارت خارجہ نے پاکستانی سفارت کار کو طلب کرکے اس حملے پر احتجاج کیا اور مسلم اکثریتی پاکستان میں رہنے والے ہندو خاندانوں کی حفاظت کا مطالبہ کیا۔ گزشتہ سال دسمبر میں قدامت پسند مسلمانوں کے ایک بڑے پرتشدد ہجوم نے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا میں ایک صدی پرانا ہندو مندر مسمار کر دیاگیا ۔

پاکستان میں انتہا پسندی کا مسئلہ اب افیون کی طرح ہوتا جا رہا ہے  جسے حکومتِ پاکستان نے لوگوں کے اندر داخل  کیا ہے۔یہ تشدد اب صرف  ہندوؤں کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ زیادہ تر لوگ اس کے شکار ہو رہے ہیں۔ایک  اعداد و شمار سے پتہ چلا ہے کہ اقلیتیں توہین رسالت قانون کی شقوں کے تحت دائر مختلف مقدمات میں پھنسائے جاتے  ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں توہین رسالت قوانین کو کیسے منصفانہ طریقے سے نافذ کیا جاتا ہے۔  

پاکستان میں ایک معصوم بچے کے خلاف توہین مذہب کے الزامات نے دنیا بھر کےماہرین  قانونی کو حیران کر دیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ معصوم پر اس طرح کی قانونی کاروائی سمجھ سے باتر ہے۔ حالاں کہ وہ معصوم کبھی بھی اس طرح کے معاملات میں ملوث نہیں رہا ہے اوتر نہ کبھی اس سے قبل اس نوجوان پر پاکستان میں پہلے کبھی توہین مذہب کا الزام نہیں لگایا گیا۔ توہین رسالت کے قوانین ماضی میں پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف غیر متناسب طور پر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ اگرچہ 1986 میں اس جرم کے لیے سزائے موت متعارف کروائے جانے کے بعد سے ملک میں توہین رسالت قانون کو لے کر کوئی پھانسی نہیں دی گئی  ،توہین رسالت قانون کے معاملے میں  مشتبہ افراد پر اکثر حملہ کیا جاتا ہے اور بعض اوقات وہ ہجوم کے ہاتھوں تشدد کا شکار ہوجاتے ہیں۔

ایک قانون دان اور پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ رمیش کمار نے کہاکہ ’’مندر پر حملہ اور آٹھ سالہ نابالغ لڑکے کے خلاف توہین مذہب کے الزامات نے مجھے واقعی حیران کر دیا ہے۔ حملے کے خوف سے ہندو برادری  نے تقریباً سو سے زیادہ گھروں کو خالی کر دیا گیا ہے۔ پاکستان میں حالیہ حملے ہندوؤں پر ظلم و ستم کی ایک شاید ایک نئی لہرہے ۔

2014 سے 2018 کے درمیان مجرمانہ توہین رسالت کے قوانین والے ممالک میں مبینہ توہین رسالت کی کارروائیوں کے نتیجے میں ہجوم کی سرگرمیوں  اور ہجومی تشدد کی دھمکیوں کے تقریبا 80فیصد واقعات پاکستان میں رپورٹ ہوئے ہیں۔ امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق بین الاقوامی مذہبی آزادیوں پر کمیشن نے   جورپورٹ گزشتہ سال شائع کیا تھا اس میں   پاکستان نے مبینہ گستاخانہ کارروائیوں کے نتیجے میں ہجوم کی سرگرمیوں  اور ہجومی تشدد کی دھمکیوں کے سب سے زیادہ واقعات  رونما ہوئے ہیں۔

اکتوبر 2018 میں ، پاکستان کی سپریم کورٹ نے سزا کو کالعدم قرار دیا اور 47 سالہ آسیہ بی بی کو رہا کرنے کا حکم دیا ، جو کہ صوبہ پنجاب کے ایک گاؤں کی مسیحی خاتون ہے جو آٹھ سال سے موت کی سزا کاٹ رہی ہے۔ توہین رسالت کے قانون کی حمایت کرنے والے گروہوں نے آسیہ کی رہائی کے فیصلے کے خلاف سڑکوں پر نکل کر عوامی اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا اور سپریم کورٹ کے ججوں ، سرکاری افسران اور عسکری قیادت کو پرتشدد انتقام کی دھمکیاں دیں۔ توہین مذہب کا الزام لگانے والے پروفیسر جنید حفیظ کو 2013 سے قید تنہائی میں رہنے کے بعد سزائے موت سنائی گئی۔ ان کے وکیل کو چند سماعتوں کے بعد ہی گولی مار دی گئی ، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ کس طرح توہین مذہب کے ملزمان کو اچھا قانونی مشورہ نہیں مل سکتاہے۔

سزائے موت سب سے ظالمانہ سزا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایسا کوئی راستہ نہیں ہے کہ اس شخص کی اصلاح کی جائے اور اسے معاشرے میں واپس لایا جا سکے جو کہ انسانیت کے اصولوں کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ سزائے موت کا معیار اس کی اٹل فطرت کی وجہ سے بلند ہونا چاہیے۔ سزائے موت کے بین الاقوامی کمیشن  کا کہنا ہے کہ اس جرم کو بہت ہی خطرناک معاملے میں رکھنا چاہیے۔ ہر جرم کی وجہ سے  سزائے موت کی سزا نہیں دی جا سکتی۔پاکستان میں  توہین رسالت کے قوانین میں سزائے موت کا معیار بہت کم ہے اور بین الاقوامی معیار کے مطابق نہیں ہے۔ یہ عملی طور پر پاکستان میں تمام مذہبی اقلیتوں کو سزائے موت  کے لیے  ممکنہ امیدوار بنانے کا ایک ذریعہ ہے۔

ہم بین الاقوامی برادری سے گزارش کرتے  ہیں کہ وہ اس معاملے کو دیکھیں  اور پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کی ممکنہ نسل کشی کی روک تھام  اور اس میں نوجوان اقلیتی بچوں کی زندگیوں کو یقینی بنانے کا کام کریں۔

اہم گزراش:

1۔ پاکستان میں انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کی خلاف ورزی کی واضح طور پر مذمت کرنا

2۔ ریاست پاکستان پر زور دینا کہ وہ آرڈیننس XXاور توہین رسالت قانون کو ختم کرے

3۔ ریاست پاکستان پر زور دینا کہ وہ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرے

4۔ پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے قتل کو فوری طور پر روکنے کے لیے تمام ضروری اقدامات کرے

5۔ ایک آزاد این سی ایم بنانے کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالنا

Recommended