Urdu News

الوداع منیجر پانڈے!اپنی کلاہ کج ہے اسی بانکپن کے ساتھ

ہندی ادب کے نامور اور معروف تنقید نگار منیجرپانڈے

ڈاکٹر خالد مبشر

شعبۂ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ

ہندی کے ممتاز نقاد منیجر پانڈے کی رحلت ہندوستانی ادبی برادری کے لیے ایک بڑا سانحہ ہے۔

آنجہانی پروفیسر منیجر پانڈے  مارکسزم کے وہ راسخ العقیدہ مبلغ تھے ، جنھوں نے بھکتی عہد کو بھی مارکسی نظر سے ہی دیکھا اور کمال کی نکتہ رسی کی۔

ان کے نزدیک مزاحمت اور احتجاج ہی جمہوریت کی اصل روح ہے اور ان کی بیاسی سالہ زندگی کا ایک ایک لفظ اسی جرات و بیباکی کا اعلان کرتا ہے۔

وہ محض نرے نقاد ہی نہیں تھے بلکہ ادیبوں میں ان جیسی دانش و بینش اور سیاسی و سماجی بصیرت رکھنے والی شخصیات کم ہی ہوں گی۔

اس خبر کو بھی پڑھ سکتے ہیں

پروفیسر منیجر پانڈے (پیدائش : 23 ستمبر 1941 لوہٹی،گوپال گنج،بہار۔وفات : 6 نومبر 2022 دہلی۔)

جے این یو،دہلی کے سینٹر فور انڈین لینگویجز میں پروفیسر اور صدر شعبہ کے عہدے پر فائز رہے۔انھوں نے بنارس ہندو یونی ورسٹی سے ایم اے اور پی ایچ ڈی کیا۔کچھ دنوں بریلی کالج اور جودھپور یونی ورسٹی میں بھی تدریسی فرائض انجام دیے۔ہندی تنقید میں ان کی نمایاں شناخت ان کی کتاب ‘بھکتی آندولن اور سور داس کا کاویہ'(1989) کے حوالے سے قائم ہوئی۔لیکن اس کے علاوہ ان کی

:درج ذیل کتابیں بھی ہندی تنقید میں بے حد اہم ہیں 

شبد اور کرم (1981، ساہتیہ اور اتہاس درشٹی 1982، سور داس 2008

ساہتیہ کے سماج شاستر کی بھومیکا (1989) اسی کتاب کا نیا اڈیشن ‘ ساہتیہ اور سماج شاستریہ درشٹی’ کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔

آلوچنا کی ساماجکتا 2005،اپنیاس اور لوک تنتر 2013،ہندی کویتا کا اتیت اور ورتمان 2013، آلوچنا میں سہمتی۔اسہمتی 2013

بھارتیہ سماج میں پرتی رودھ کی پرمپرا 2013،ساہتیہ اور دلت درشٹی، شبد اور سادھنا، مغل بادشاہوں کی ہندی کویتا 2016

:منیجر پانڈے کی ادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں درج ذیل ایوارڈ سے سرفراز کیا جا چکا ہے

ہندی اکادمی،دلی کا ‘شالکا سمان’

راشٹریہ دنکر سمان

رام چندر شکلا شودھ سنستھان بنارس کا ‘گوکل چندر شکلا سمان’

دکچھن بھارت ہندی پرچار سبھا کا ‘سبرامنیہ بھارتیہ سمان’

آج صرف ہندی ہی نہیں بلکہ ہندوستانی ادب نے اپنا ایک عظیم سپوت کھو دیا۔

Recommended