Urdu News

حافظ امین صاحب : سرائے میر کی موت سے علاقے میں غم کی لہر

حافظ امین صاحب : سرائے میر کی موت سے علاقے میں غم کی لہر

حافظ امین صاحب : سرائے میر کی موت سے علاقے میں غم کی لہر

حافظ امین، سرائے میر کا انتقال، علاقے کا ما حول سوگوار

محمد ارشد فاروقی

سرائے میر کے علماوحفاظ کے قدیم گھرانے کے آخری چراغ نے روشنی قبر وبرزخ اورآخرت کی طرف موڑ لی اور نور سے گھر چمک اٹھا جب حافظ امین صاحب کی روح آج پرواز کرگئی ۔انہوں نے لمبی عمر پائی نوے سال سے زیادہ کا زمانہ پایا ان کا نام امین تھا پوری زندگی امانت سے تعبیر تھی۔ انہوں نے دیار غیر میں رہتے ہوئے بھی اولاد کی تعلیم وتربیت پر خاص توجہ دی اورتینوں انیس ،شکیل ،عتیق لڑکوں کو علم دین کے زیورسے آراستہ کیا اور مولانا انیس مولانا شکیل کو مدرسۃ الاصلاح کے بعد دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کرائی اورمولوی عتیق کو مدرسۃ الاصلاح سے فضیلت کرائی یہ بہت بڑا کارنامہ ہے۔

 حافظ صاحب کا اس دور کے والدین کے لیے سبق آموز ہے حافظ صاحب کا گھرانہ ست گھروا سے مشہور ہے کہ ایک ہی احاطہ میں سات گھر ایک ہی خاندان کے تھے اسی گھرانے کے ممتاز عالم دین مولانا ادریس صاحب امام وخطیب عیدگاہ سرائے میر اورخشوع وخضوع کے پیکر حافظ ایوب صاحب جن کی نماز کاتذکرہ بابت خشوع وخضوع جب نانا مرحوم( حضرت مولانا ومحدث علی احمد شاگرد علامہ انور شاہ کشمیری )کے سامنے کیا گیا تو فرمانے لگے جی ہاں ان کا استنجا بھی اسی قدر خشوع سے ہوتا ہے وہ نانا کے شاگرد تھے،اسی طرح شہرت یافتہ حافظ یعقوب تھے جو ملیشیا میں خدمت دین کرتے رہے اوربڑا کارنامہ انجام دیا کہ فضائل اعمال تبلیغی نصاب کاملائی زبان میں ترجمہ کیا یہ ان کی ذھانت اور غیرمعمولی قابلیت کا شاہ کار ہے ان کے دوصاحبزادگان مولانا فیضان اورحافظ فرقان ہیں۔

حافظ امین صاحب کا وجود گھرانے کے لیے بڑی نعمت تھا دروازے کی وہ رونق تھے جب ہم جاتے تو گو وہ آرام میں دکھائی دیتے لیکن جب ان کے قریب ہوتے تو وہ پہچان لیتے اور کہتے میں دیکھ رہا تھا پھر والد محترم حافظ مختار احمد کاتذکرہ کرتے ان کے محاسن بیان کرتے،حافظ صاحب نیک تھے پکے نمازی عمدہ قرآن پڑھنے والے تھے

حافظ صاحب سے راقم کی ملاقات ملیشیاان کے کام کی جگہ ہوئی بڑی شفقت سے پیش آیے گھر گھرانے کی خیریت پوچھتے رہے اپنے قریب چارپائی پر آرام کا بندوبست کیا اور صبح سویرے کام پر نکل گئے وہ رات میرے لیے ملیشیائی راتوں میں سب سے پرسکون شفقتوں سے لبریز رہی ،حافظ صاحب بڑے محنتی اصول پسند دھن کے پکے تھے کفایت شعار تھے صاحب حیثیت تھے لیکن اس کا کبھی مظاہرہ نہ کرتے وہ خانگی  معاملات میں توجہ دلاتے اور حوصلہ افزائی کرتے رہتے۔

ہم نے ان کو موٹر سائیکل سے رواں دواں ملیشیا میں دیکھا ،اور سرائے میر میں پنجگانہ کے لیے مہم سر کرتے دیکھا بیس رکعت تراویح کا اہتمام  چند سال پہلے تک کرتے دیکھا ،آخیر میں ویہلچیر پر دیکھا کہ گھر سے رونق بازار زبیر بھائی کرانہ مرچنٹ تک شوق سے محبت خریدنے جاتے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہڈیوں کا ڈھانچہ نحیف وزار دیکھا اور روح پرواز ہوتے سنا ۔ابھی دودن پہلے کی تو بات  ہے جب اسی گھر سے یاایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیہ مرضیہکی آواز سنی گئی تھی اور حافظ صاحب کے بڑے بیٹے بڑے مدرس مولانا انیس کاوصال ہوا شفقت پدری نے ڈھانپ لیا

حافظ کی اولاد گھرانہ خوش قسمت ہے کہ خدمت کا حق ادا کیا اللہ ان کو گھرانے کی روش پر قائم رکھے اور ہم بھی اس قدیم مثالی گھرانے سے روابط کی خاندانی صالح روایات کو قایم رکھ سکیں اللہ سب کو بخشے ۔

Recommended