Urdu News

ہم نے ایسا کنواں دیکھا ہے جو پیاسوں کے پاس جاتا تھا: امیر حمزہ اعظمی

آبروئے فن عزیز بارہ بنکوی کی برسی پر انھیں خراج عقیدت پیش کیا گیا

بارہ بنکی،(ابوشحمہ انصاری)

 ہمیں فخر ہے کہ ہم نے ایک ایسے کنویں کو دیکھا ۔ہے اور خود اپنی پیاس بجھائی ہے جوخود چل کر پیاسوں کے پاس جاتا تھا اور ان کی پیاس بجھاتا تھا جب کہ کہاوت یہ ہے کہ پیاسا کنویں کے پاس جاتا ہے کنواں پیاسے کے پاس نہیں جاتا  اس کہاوت کے برخلاف شعروسخن کے اس کنویں کی یاد میں ہم لب کشا ہیں جو پیاسوں کے پاس جاتا تھا انھیں عزیز بارہ بنکوی اور آ بروئے فن کی حیثیت سے جانا جاتاتھا اور آ ج بھی ان سے ادبی فیض حاصل کرنے والے ان کے ذریعہ حاصل شدہ سرمایہ نئی نسل کو منتقل کر رہے ہیں۔

ان خیالات کا اظہارحضرت عزیز بارہ بنکوی کی تاریخ رحلت پر ان کی شخصیت اور خدمات سے نئی اد بی نسل کو روسناش کرانے کی غرض سے شیخ فرزند علی میموریل اسکول میں بزم افقر ۔بزم عزیز اور دبستان عزیز کے مشترکہ اہتمام میں منعقدہ مذاکرہ اور ادبی نشست کےدوران کیا گیا۔

 تقریب کی صدارت استاد الشعرا رہبر تابانی نے اورنظامت صغیر نوری نے کی اس دوران مقررین نے حضرت عزیز بارہ بنکوی کی غیر معمولی ادبی خدمات اور ان کی منفرد شخصیت کے حوالے سے واضح کیا کہ وہ اپنے عہد کے ایک ایسے نیک سیرت اوراکابرین سخن میں تھے جن کے نعتیہ مجموعہ پر علی میاں ندوی نے تقریظ لکھی تھی اور انھیں اپنے اقربا میں شمار کیا تھا حضرت عزیز بارہ بنکوی کی شخصیت اب بھی ان کے ادبی وارثین کے حوالے سے ہمارے درمیان ہے ہماری زمہ داری ہےکہ ہم اپنے اسلاف کو یاد رکھیں تاکہ ہم بھی یاد رکھے جائیں۔ناظم محفل صغیر نوری نے اجمالی طور پر حضرت عزیز بارہ بنکوی کا سوانحی خاکہ پیش کیا۔

مہمان خصوصی ڈاکٹر حیدر اور صدر محفل رہبر تابانی نے نثری اور نظمی خراج عقیدت پیش کیا۔

اس موقع پرشعری نشست کے دوران شعراکے پسند کئے گئے اشعار پیش قارئین ہیں۔

تم نےجو بزرگوں کی بھلا دیں شکلیں

تم کو بھی بھلا دیں گی تمہاری نسلیں

رہبر تابانی دریابادی

بس اک چراغ حق ہے جو اب تک بجھا نہیں

باطل کے جانے کتنے جلے اور بجھے چراغ

نصیر انصاری

تمہارے خط سے یہ لگ رہا ہے کہ روتے روتے لکھا ہے تم نے

یہ ان کہی سی تمہاری باتیں کوئ سنے گا تو کیا کہے گا

امیر حمزہ اعظمی

غیر ممکن ہے دعا عرش بریں تک پہنچے

تیرے لہجے میں نہ منت نہ سماجت کچھ بھی

شعیب انور

ہم کو بھی دارو رسن تک لے چلو

ہم بھی تو حقدار ہیں انعام کے

صغیر نوری

دے ستمگر مجھے جواب کوئی

کیا نہ ہوگا ترا حساب کوئی

ھذیل لعل پوری

مجھ پی آ جائے اثر سارے کا سارا ان کا

بس یہی سوچ کے پہنا ہے اتارا ان کا

ارشاد بارہ بنکوی

آتما جا کے پرماتما سے ملی

راکھ ساری چتا کی دھری رہ گئی

نفیس بارہ بنکوی

جانا ھا ایک روز ہمیں نفرتوں کے دیس

اوڑھی محبتوں کی ردا اورچل پڑے

صابر نظر

بات ہے کڑوی لیکن بالکل سچی ہے

طوفانو ں کی زد پر اپنی بستی ہے

زاہد بارہ بنکوی

چاہت تری فریب تھی ہم نیند میں رہے

اچھا ہوا کہ وقت سے بیدارہو گئے

کرن بھاردواج

اس کے علاوہ آدرش بارہ بنکوی، صبا جہانگیر آبادی، لتا شریواستو اور ڈاکٹر فرقان نے بھی کلام پیش کیا۔ آخر میں ناظم صغیر نوری نے کلمات تشکر ادا کئے۔

Recommended