Urdu News

ہیپی فادرز ڈے: تحریر آفتاب سکندر

میرے والد محترم حاجی صاحب

آفتاب سکندر

معراج فیضی صاحب کا شعر جو اکثر احباب کے منہ سے سننے کو ملتا خاص کر اس دن کو کیوں کہ اس دن کو فادرز ڈے منایا جاتا ہے۔شعر قلمبند کئے دیتا ہوں

ہمیں پڑھاؤ نہ رشتوں کی کوئی اور کتاب

پڑھی ہیں باپ کے چہرے کی جھریاں ہم نے

ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ہیں تو باپ اے سی ہوتے ہیں یہ اور بات ہے کہ کمپریسر گرم بہت جلدی ہوجاتا ہے۔ والد جیسے سایہ شفقت کے لیے ایک دن مخصوص کرنا درست بات نہیں ہے۔ بہرکیف والد جیسے شفقت کے درخت اور محنت کے پہاڑ کے لیے ہر دن ہی مختص ہونا چاہیے۔نیچے چند اشعار والد محترم جیسی عظیم ہستی کے لیے کہے گئے نامعلوم شاعر کے الفاظ قلمبند کررہا ہوں۔

پیکر تھا وفا کا محبت کا خدا تھا

وہ شخص زمانے میں سب سے جدا تھا

چاہت کے خزانے تھے ہر لفظ میں اُس کے

دامن میرا اُس نے دعاؤں سے بھرا تھا

مجھ کو نہیں دیکھا کڑی دھوپ نے چھُو کر

بابا میرا دنیا میں مجھے ایسا جو ملا تھا

بندہ ناچیز و بے ہنر کے والد محترم نے ساٹھ کی دہائی میں حاجی سردار خان آڈھے خیل کے کنبے میں آنکھ کھولی۔ سردار خان آڈھے خیل معروف سرائیکی شاعر فخرِ پنجاب پاکستان استاد آڈھا خان کے برادرِ اصغر تھے۔ اُن دنوں دادا جان استاد آڈھا خان کے نام کا چرچا ہند سندھ میں چلتا تھا یوں حاجی صاحب نے جنم تو ادبی خاندان میں لیا۔ میرے دادا جان حاجی سردار خان آڈھے خیل زمیندار تھے اور غیر تعلیم یافتہ تھے۔اُن کے نو بچے تھے جن میں تین بیٹیاں اور چھ بیٹے تھے۔ان سب سے میرے والد محترم حاجی صاحب منفرد تھے۔کس بنیاد پر منفرد تھے؟ وہ اس بنیاد پر منفرد تھے کہ سب بہن بھائیوں میں فقط حاجی صاحب نے ہی تعلیم حاصل کی۔ شروع سے ہی والد صاحب کا رجحان تعلیم و تعلم کی طرف تھا جس کی سب سے بڑی مثال یہی ہے کہ ہماری آڈھے خیل برادری میں گریجویشن مکمل کرنے والے وہ پہلے فرد تھے۔

حاجی صاحب نے بسلسلہ روزگار گھر سے باہر پہلا قدم 1982 عیسوی میں رکھا اور تاحال 2022 عیسوی میں زمانے کی کڑی دھوپ میں راقم کے اخراجات وغیرہ برداشت کرنے کے لیے پسینہ بہار ہے ہیں۔

1982عیسوی میں پاکستان ائیر فورس میں شمولیت اختیار کی اور پاکستان کے کئی شہروں کی خاک چھانی. اس دوران لاکھوں سے ملے تجربہ حاصل کیا. 2000 عیسوی میں ریٹائرمنٹ لی۔ ریٹائرمنٹ کے بعد آباؤ اجداد کے پیشے کھیتی باڑی سے منسلک رہے۔ ساتھ ہی ساتھ اپنی اعلیٰ تعلیم سے قوم کے بچوں کو مستفید کرنے کا سوچا یوں 2005 عیسوی میں محکمہ تعلیم سے منسلک ہو گئے انہوں نے 19 ماہ محکمہ تعلیم میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دئیے۔ بعدازاں محکمہ تعلیم سے مستعفی ہوگئے۔

2006عیسوی میں حاجی صاحب نے بحرین کی سرزمین پر دفاع المدنی میں بطور انسٹرکٹر قدم رکھا جو ابھی ثابت قدم کئے ہوا ہے. 16 سال سے زائد عرصہ ہو گیا ہے حاجی صاحب کو دیارِ غیر میں انگریزوں، عربیوں، یمنیوں کو بطور انسٹرکٹر تعلیم دیتے ہوئے کبھی کبھار والد صاحب کہتے ہیں کہ تنہائی میں سوچتا ہوں کہ کہاں میں فیکٹری میں مزدوری کرنے والے کا بیٹا، اللہ کی شان دیکھوں آج سرزمینِ بحرین پر ہانگ کانگ سے آئے، یمن سے آئے، سعودی عرب سے آئے یہاں تک کہ امریکہ سے آئے گوروں نہ صرف گوروں سپائیوں بلکہ گوریوں کو بھی تعلیم دے رہا ہوں۔

حاجی صاحب انتہائی زیرک اور علم دوست انسان تھے. حاجی صاحب کے حلقہ احباب میں اکثر علم دوست ہی ہوتے تھے. حاجی صاحب کو اپنے میں سب زیادہ رُغبت اپنے چھوٹے چچا جان سے تھی کیونکہ وہ ایک عالم فاضل شخصیت تھے اور معروف شاعر بھی تھے جس کی وجہ سے حاجی صاحب اکثر اُنہی کی صحبت سے اکتساب فیض کرتے رہتے۔

میرے ایک استاد محترم امیر بندیالوی صاحب تھے اُن کا تعلق بندیال شہر سے تھا جس شہر سے عمر عطاء بندیال، ایف کے بندیال مرحوم جیسی شخصیات تھیں۔ انہوں نے ایک دن مجھ سے کہا کہ تمھارے والد صاحب کے دوست ملک ظفر صاحب. بندیال کے ملک برادری سے ایک ہی فرد تمھارے ابو کے حلقہ احباب میں آتا ہے. کیوں آتا ہے؟ یہ تم ابھی چھوٹے جب بڑے ہوجاؤں گے تو جان جاؤں گے۔

میں نے جب گریجویشن مکمل کی تو میری ایک بار ملک ظفر صاحب سے ملاقات ہوئی. انہوں نے پوری کتابوں ایک لائبریری اکٹھی کر رکھی تھی. مجھے اس دن استاد محترم کی بات سمجھ آئی کہ تمھارے والد صاحب کی دوستی بندیال کی ملکال برادری کے ایک فرد سے کیوں ہے کیونکہ انہوں نے کسی بیوروکریٹ یا وڈیرے کی عالم فاضل سے ہی دوستی کو فوقیت دینا تھی۔

والد صاحب کا رجحان مذہب کی طرف بہت زیادہ تھا۔حاجی صاحب کو شاہ احمد رضا خان بریلوی سے بہت عقیدت ہے بہت زیادہ عقیدت۔ انہوں نے ماسٹر کے لیے اسی لیے مذہبی مضمون کا ہی انتخاب کیا تا کہ وہ مذہب کو بھی گہرائی سے پڑھ سکیں۔ والد صاحب نے شاہ احمد رضا خان بریلوی کی قرآن کی تفسیر کا مطالعہ کر رکھا تھا اور آج بھی جب وہ بحرین سے آئیں تو بلا ناغہ صبح سویرے قرآن کی تلاوت بمع ترجمہ و تفسیر کرتے ہیں۔ مذہب میں وہ بریلویت کے بہت قائل ہیں اور اس معاملے میں انتہائی سخت ہیں کیونکہ وہ خود پیر فقیروں میں یقین رکھتے ہیں۔ اس معاملے پر کبھی بحث نہیں کرنے دیتے ہیں.

حاجی صاحب کے پاس جو کتابوں کا ذخیرہ ہے اس میں فقہ کی کتب کے سوا کچھ بھی نہیں اور وہ شاہ احمد رضا کے عشق کے قائل ہیں اسی خلوص و محبت کی بناء پر ہی انہوں نے برادرِ اصغر کا نام احمد رضا رکھا۔

حاجی صاحب جب شعبہ تعلیم سے منسلک تھے تو وہ چوآ شریف میں بریلویوں کی جامعہ مسجد میں خطابت کیا کرتے تھے اور وہاں بھی عشقِ رضا کے پھول اُگاتے تھے۔ صالح محمد لاٹ اور چوآ شریف کے فقیران کے در پر حاضری دینا اُن کا معمول تھا۔

ایک دفعہ اُن کے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ ہم گنجیال شریف کی ایک مسجد میں گئے جہاں پر خطابت ایک انیسویں گریڈ کے ہیڈ ماسٹر صاحب کیا کرتے تھے. ہوا کچھ یوں کہ اُن کی خطبہ کی کتاب گُم گئی اور وہ پریشان ادھر اُدھر پھر رہے تھے اور خطبہ کا وقت بھی نکلا جارہا تھا کہ حاجی صاحب کے علم میں یہ بات آگئی۔حاجی صاحب نے اُن صاحب کو اس مذہبی مسئلہ کا علم نہ تھا انہوں نے عرض کی کہ آپ حوالہ دیں ایسے کیسے میں آپ کی بات کا یقین کرلوں۔حاجی صاحب نے جواباً عرض کیا کہ جناب آپ نے ماسٹرز کس مضمون میں کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے انگریزی میں کی ہے. حاجی صاحب نے کہا میں نے اسلامیات کی ہے پھر بھی کوئی اعتراض کرے تو میرے سامنے لائیے گا۔

بہت سے قارئین کی جو مجھ ناچیز کے کالم پڑھتے رہتے ہیں کی گزارش تھی اپنے والد صاحب کا تعارف کرواؤں تو اس کے لیے فادرز ڈے کی نسبت سے کالم بند کیا۔

اللہ رب العزت تمام احباب جن کے والدین حیات ہیں اُن پر اُن کے والدین کا سایہ قائم رکھے. جن کے دارِ فانی سے رحلت فرما گئے ہیں اُن کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔

Recommended