Urdu News

کیا غائب ہو چکے ہیں اُردو میں بچوں کے رسائل؟

ماہنامہ ”گُل بوٹے“

 کیا غائب ہو چکے ہیں اُردو میں بچوں کے رسائل؟ 

بچوں کے رسائل :’کھلونا‘اور’پھول‘ سے ’ماہنامہ سائنس‘اور ’گُل بوٹے‘تک 
ڈاکٹر شفیع ایوب 
اکثر یہ باتیں سنتا ہوں کہ اب اردو میں بچوں کے رسائل غائب ہو چکے ہیں۔ پچاس سال اور اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کو اکثر یہ کہتے سنا گیا ہے کہ ہمارے بچپن میں ”کھلونہ“ ”پھول“ اور ہلال“ جیسے رسائل گھروں میں آتے تھے۔ زیادہ تر والدین کو شکایت ہے کہ ان کے بچے اسمارٹ فون پر دن رات گیم کھیل رہے ہیں۔ کچھ بچے تو اسمارٹ فون کے اس قدر دیوانے ہو چکے ہیں کہ انھیں اور کسی کام میں دلچسپی ہی نہیں۔ ایسے والدین سے جب پوچھا گیا کہ کیا آپ نے اپنے بچوں کو پڑھنے کے لئے رسائل دئے؟ تو والدین خاموش۔ دراصل زیادہ تر لوگوں کو معلوم ہی نہیں کہ اب بھی بچوں کے رسائل شائع ہوتے ہیں۔ افسوس کے ساتھ کھلونہ، پھول اور ہلال جیسے رسائل کی بات کرنے والے سن لیں کہ اب بھی اردو میں بچوں کے رسائل شائع ہو رہے ہیں۔ شاندار، جاندار اور بھرپور اردو رسائل آن بان شان سے بچوں کے لئے شائع ہو رہے ہیں۔ آپ کہاں کھوئے ہیں؟ کس نیند سو رہے ہیں؟ بچوں کو اسمارٹ فون کی لت پڑ چکی ہے تو اس کے ذمہ دار آپ ہیں۔ آپ نے بچوں کو نظمیں، غزلیں، قصہ کہانی پڑھنے کی طرف راغب نہیں کیا۔ غلطی آپ کی ہے۔ اب بھی وقت ہے، بچوں کو ہر طرح کے رسائل لا کر دیجئے۔ رسائل موجود ہیں۔ معلوماتی شعری و نثری مواد سے بھرپور، خوبصورت،دیدہ زیب رسائل بازار میں دستیاب ہیں۔ اپنے بچوں کو پڑھنے کی عادت ڈالیں۔ ان کا مستقبل بچائیں۔
اگرچہ ماہنامہ ”سائنس“ بچوں کا رسالہ نہیں ہے لیکن بچوں کے لئے اس رسالے میں بہت کچھ ہوتا ہے۔ آپ اپنے بچوں کو ماہنامہ ”سائنس“ پڑھنے کو دیجئے تاکہ آپ کے بچوں میں سائنسی ذہن پیدا ہو سکے۔ سائنس داں بن جانے اور سائنسی ذہن پیدا ہو نے میں بڑا فرق ہے۔ اس فرق کو سمجھنا ہوگا۔ ضروری نہیں کہ آپ کا بچہ سائنس داں بنے، لیکن اگر اس کے اندر سائنسی ذہن پیدا ہو گیا تو وہ زندگی کے ہر میدان میں ہر کام سلیقے سے کر سکے گا۔ مولانا آزاد نیشنل اُردو یونیورسٹی کے موجودہ وائس چانسلر ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے 1992میں انجمن فروغ سائنس کی داغ بیل ڈالی جس کے سرپرست نوبل انعام یافتہ سائنس داں پروفیسر عبد السلام، ہمدرد دواخانہ والے حکیم عبد الحمید صاحب اور نامور ماہر تعلیم سید حامد صاحب تھے۔ اس انجمن کے تحت ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب فروری 1994سے ایک عام فہم سائنسی اور ماحولیاتی اُردو ماہنامہ ”سائنس“ نکال رہے ہیں۔ یہ کام ڈاکٹر اسلم پرویز صاحب سود و زیاں سے بے نیاز ہو کر کر رہے ہیں۔ اس کام میں ڈاکٹر عبدالمعز شمس صاحب، شمس الاسلام فاروقی اور مولانا ڈاکٹر طارق ندوی صاحبان جیسے علم کے زویا ان کا ساتھ دیتے رہے ہیں۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے بچوں میں سائنس اور ماحولیات سے دلچسپی پیدا کرنے کے لئے نہ صرف ماہنامہ ”سائنس“ خرید کر انھیں دیں بلکہ انھیں ماہنامہ ”سائنس“ پڑھنے کی ترغیب بھی دیں۔  
عروس البلاد ممبئی کا بھی اُردو سے بڑا گہرا رشتہ ہے۔ مراٹھی کے علاقے میں اُردو نے جس شان سے زندگی بسر کی ہے وہ ہم دلّی اور لکھنؤ والوں کے لئے قابل رشک ہے۔ قابل مبارکباد اور قابل تقلید ہیں ممبئی کے عاشقانِ اُردو۔ انھی عاشقوں میں ایک ہیں ماہنامہ گُل بوٹے کے ایڈیٹر فاروق سید۔یہ بھی سود و زیاں سے بے نیاز بچوں کے ادب کے لئے خود کو وقف کر چکے ہیں۔ فاروق سید نے ماہنامہ ’گُل بوٹے‘ کو جس طرح سجایا ہے، سنوارا ہے وہ بغیر جنون کے ممکن نہیں تھا۔ ایسے وقت میں جب نہ جانے کتنے اردو والے روز اردو کی موت پہ ماتم منا رہے تھے اور ہر وقت اردو کا جنازہ اپنے کاندھوں پہ لئے گھوم رہے تھے، فاروق سید جیسے دیوانے بچوں کے مستقبل کو دھیان میں رکھ کر ”گُل بوٹے“ جیسا رسالہ نکال رہے تھے۔ جو لوگ ماہنامہ ”گُل بوٹے“ کے ممبئی دفتر میں گئے ہونگے انھیں اندازہ ہوگا کہ اگر آپ سلیقے اور قرینے سے بچوں کا رسالہ نکالیں تو یہ محض گھاٹے کا سودا بھی نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اردو میں بچوں کا رسالہ نکالیں گے تو لازمی طور پر فاقہ کشی کے شکار ہونگے۔اس مختصر سی تحریر میں اردو میں بچوں کے رسائل پر بھرپور بحث نہیں کر سکتے۔ کچھ برس پہلے دلّی اردو اکیڈمی کی جانب سے  اور بعد میں بھوپال کے این سی ای آر ٹی کے ریجنل کالج میں ڈاکٹر رضوان الحق اور ڈاکٹر شعیب رضا خان کی کوششوں سے نیشنل سیمینار بچوں کے ادب پر ہوا۔ ان دونوں سیمیناروں میں بچوں کے رسائل پر بھی کئی عمدہ مقالات پڑھے گئے۔ بعد میں دہلی میں بچوں کے ادیب سراج عظیم نے بھی بچوں کے ادب پر نیشنل سیمینار کا نعقاد کیا جس میں بچوں کے رسائل سے متعلق تمام مسائل زیر بحث آئے۔ 
بات صرف اتنی ہے کہ جو لوگ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ بھائی ہم تو اپنے بچپن میں ’ہلال‘ ’پھول‘ ’بتول‘ اور ”کھلونا“ پڑھا کرتے تھے۔ انھیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ آج بھی ایسے رسائل اردو میں شائع ہو رہے ہیں جن کے مطالعہ سے ان کے بچوں کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ دہلی اردو اکیڈمی کا رسالہ ”ماہنامہ بچوں کا اُمنگ“  قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کا رسالہ ”بچوں کی دنیا“ (مدیران: ڈاکٹر شیخ عقیل احمد اور ڈاکٹر عبد الحئی)، ”ماہنامہ اردو سائنس“ (مدیر: ڈاکٹر محمد اسلم پرویز) ”ماہنامہ بچوں کا ساتھی“ اور ممبئی سے فاروق سید کی ادارت میں شائع ہونے والا ماہنامہ ”گُل بوٹے“ ایسے رسائل ہیں جنھیں آپ خرید کر اپنے بچوں کو دیجئے۔ اپنے رشتہ داروں کے بچوں کو ان کے جنم دن پر ان رسائل کی سالانہ خریداری کا تحفہ پیش کیجئے۔ اردو کاجنازہ لے کر چلنے والوں کا جنازہ نکل چکا ہے۔ اردو کا سوگ منانے والوں کا سوگ منایا جا چکا ہے۔ اردو پہ ماتم کرنے والے اپنے ماتمی لباس کے ساتھ کہیں غائب ہو چکے ہیں۔ آپ تو صرف اردو کا رسالہ اپنے بچوں کو پڑھنے کے لئے دیجئے اور اردو کا اخبار خود خرید کر پڑھئے۔ باقی کام اردو پہ چھوڑ دیجئے۔ اردو میں بڑی طاقت ہے۔ وہ سخت جان ہے۔ وہ اپنے راستے خود بنا لے گی۔   
  (کالم نگار جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں تدریس سے وابستہ ہیں) 





    

Recommended