نسیم احمد نسیم
قارئین کرام
آج سوشل میڈیا کا زمانہ ہے۔ ہمیں اس بات کی آزادی ہے کہ ہم اپنی تحریریں کسی بھی زبان میں عالمی سطح پر پوسٹ کرسکتے ہیں۔ اُردو میں بھی دوسری بہت سی زبانوں کی طرح ٹائپ کرنے اور پوسٹ کرنے کی سہولت مہیا ہے۔ گزرے زمانے میں جب یہ سہولت حاصل نہیں تھی تو لکھنے والے چند رسائل اور اخبارات تک ہی محدود ہوتے تھے، نیز ان کی تحریریں اور تخلیقات بہت تاخیر اور بہت مشکل سے قارئین تک پہنچ پاتی تھیں۔ لیکن آج حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ ہم بہت کم وقت میں عالمی سطح پر قارئین کے ایک بڑے حلقے تک پہنچ سکتے ہیں۔
مگر افسوس! ان بدلے ہوئے حالات کے ساتھ ہماری ذہنیت بھی بدل چکی ہے جوکہ بہت ہی تشویشناک ہے۔ اب ہم یہ تصور کرنے لگے ہیں کہ صرف اُردو رسم الخط میں تخلیقات پوسٹ کرنے سے کچھ نہ ہوگا بلکہ دیوناگری اور رومن کا بھی سہارا لینا ہوگا۔ جب کہ یہ سوچ سراسر کم فہمی اور احساس کمتری پر مبنی ہے۔
شعراء کی ایک بڑی جماعت دیوناگری اور رومن کو فروغ دینے میں مصروف ہے
آج اُردو رسم الخط کے تحفظ کا مسئلہ سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔ ان حالات میں ہم چاہیں تو سوشل میڈیا کے توسط سے اس مسلئے کو بہت حد تک حل کرسکتے ہیںاور اُردو زبان و ادب کو بڑے پیمانے پر عوام تک پہنچاسکتے ہیں۔ مگر بات وہی احساس کمتری کی ہے۔ ساتھ ہی شہرت کی ہوسناکی بھی ہمارے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ آج سوشل میڈیا پر ادباء، شعراء کی ایک بڑی جماعت دیوناگری اور رومن کو فروغ دینے میں مصروف ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ وہ اُردو کو فروغ دے رہی ہے۔ میں نے کئی دفعہ یہ اعلان کیا کہ جو اشخاص برقی صفحات پر اُردو نہیں لکھ سکتے وہ مجھے اپنے حلقۂ احباب سے باہر کردیں۔ لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ڈگر چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں۔ ہمیں کسی بھی زبان سے کد نہیں، لیکن اُردو کو اوّلیت دینا ہمارا فرض ہے۔ مگر اتنی سی بات سمجھنے سے بھی ہم قاصر ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ ہم دیوناگری میں اب اپنا شعری مجموعہ بھی چھا پ رہے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ جب اُردو والے ہی ہماری کتابیں نہیں پڑھتے تو ہندی والے کیا خاک پڑھیں گے؟ انہیں اگر پڑھنا ہی ہوگا تو اپنے مشاہیر کی کتابیں کیوں نہ پڑھیں گے؟
اُردو رسم الخط کو کم تر اور حقیر سمجھنے
اس ضمن میں ایک بڑا المیہ یہ ہے کہ اُردو رسم الخط کو کم تر اور حقیر سمجھنے اور دیوناگری رومن کو ترجیح دینے والوں میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اُردو کے پروفیسر اور ٹیچر ہیں۔ انہیں اس بات کا یقین تو ہے کہ اُردو انہیں مالامال کرسکتی ہے۔ مگر اس بات پر قطعی بھروسا نہیں کہ اُردو انہیں شہرت دلاسکتی ہے۔ یہی وہ ذہنی قلاشی ہے جو
سمِ قاتل ثابت ہورہی ہے۔ گزشتہ سال کی بات ہے کہ اُردو کے ایک جیّد ادیب اور استاد سے میں نے یہ سوال کیا کہ آپ اُردو کیوں نہیں لکھتے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ اُردو لکھنے سے ہم پھنس سکتے ہیں۔ سائبر کرائم کے افسران ہماری بات کو غلط معنی پہناکر گرفتار کرسکتے ہیں۔ اسی طرح اُردو کے ایک پروفیسر نے کہا کہ مجھے اُردو ٹائپ کرنے میں الجھن ہوتی ہے۔ ایک شاعر نے فرمایا کہ اب اُردو کون پڑھتا ہے۔ مجھے ہندی میں بہت مقبولیت حاصل ہورہی ہے، لہٰذا اب ہندی میں ہی لکھنا پڑھنا ہوگا۔ دلّی میں نئی نسل کے ایک خود ساختہ ناقد اور دانشور ہیں، وہ اکثر و بیشتر اپنی تنقیدی بصیرت اور دانش وری کا اظہار رومن رسم الخط میں ہی کرتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ یہ بہت ہی سنگین صورتحال ہے۔ ہمیں اس پر بہت ہی سنجیدگی کے ساتھ غور و فکر کرنا چاہیے اور سوشل میڈیا سے استفادہ کرتے ہوئے زبان و ادب کو فروغ دینے اور دوسروں کو بھی اس طرف راغب کرنے کی کوشش کرنی چاہیے ، اور اگر ایسا ہوگیا تو یقین جانیے کہ اس کے مثبت اور خوشگوار نتائج جلد سامنے آنے لگیں گے۔