گلشن انصاری،ممبئی
انسان اس وقت تک جرم نہیں کرتا جب تک اسے خوف رہتا ہے کہ اگر اس نے یہ جرم کیا تو اسے یقینا سزا ملے گی لیکن جیسے ہی خوف ختم ہوجاتا ہے وہ جرم کرنا شروع کر دیتا ہے ہندوستان میں جو کہ اب تک قانون کے نفاذ صرف لاچار و بے بس و بے کس و دلت اور مسلمانوں پر ہی ہوا ہے اس لئے عام طور پر جرم کا خوف دل سے نکلتا جا رہا ہے معاملہ سنگین ہوتا جارہا ہے۔
سخت قوانین کے باوجود اس میں اضافہ ہو رہا ہے گجرات میں مسلم عورتوں کے اجتماعی آبروریزی کرنے والوں کو سزا دی جاتی اسی شدت کے ساتھ اس کے خلاف آواز اٹھائی جاتی اور انصاف کی راہ میں روڑے اٹکانے والے حکمرانوں کو سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جاتا تو آج نہ تو دامنی کا معاملہ پیش آتا اور نہ ہی گڑیا کے ساتھ ایسا سلوک ہوتا۔
دنیا میں بہت سارے سفاکانہ وحشیانہ اور درندگی کا مظاہرہ کہیں نہیں کیا گیا ہے جو گجرات میں مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا تھا بیلقیس بانو کے پورے خاندان کو ان کے سامنے قتل کیا گیا اور پھر اس کی ماں، بہن کے ساتھ آبرو ریزی کی گئی اور ن کے بچے کا ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا اور پھر بلقیس بانو کے ساتھ بھی اجتماعی آبرو ریزی کی گئی۔ان کی جان اس لیے بچ گئی کیونکہ فسادیوں نے اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ دیا تھا۔
اگر ان درندوں کو سخت سزا دی گئی ہوتی تو ریپ کے معاملات پر قابو پایا جا سکتا تھا اور اب پندرہ اگست کو ان گیارہ لوگوں کو رہا کر دیا گیا جو سخت سے سخت سزا کے مستحق تھے اور جنہوں نے اتنا بڑا ظالمانہ کام سر انجام دیا تھا۔ اعداد وشمار کے مطابق ہر روز دارالحکومت دلی میں اوسطاً چار خواتین جنسی تشدد کا شکار ہوتی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں اور سات ہزار سے زائد بچوں سے ریپ کیا جاتا ہے۔ بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے بلکہ لاکھوں میں ہے کیونکہ بچے شرم کے مارے اپنے ماں باپ کو نہیں بتاتے یا والدین خاندان کی عزت کے خوف سے اس بات کو پوشیدہ رکھتے ہیں اور بہت سے واقعات تو پولیس تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔
مجرموں کو قانون کا کوئی ڈر نہیں ہے کیوں کہ ہندوستان میں قانون میں امتیاز ایک عام بات ہے اس لیے مجرم بے دھڑک جرم کرتے ہیں اسی کے ساتھ فلموں کے بے ہنگم مناظر اور ناجائز جنسی تعلقات کو پیش کرنے والے ڈرامے اس سے بھی معاشرے میں بے راہ روی کو بڑھاوا مل رہا ہے۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کردی۔
وقت آگیا ہے خواتین کو اپنی عزت کی حفاظت خود کرنی ہوگی۔ پاکیزگی کو سرعام سرباز نمائش نہیں کرنا ہے۔ عربی میں جملہ کہا گیا ہو جائے تو جو مرضی کرو جہاں معاشرے کی سوچ بدلنے کی ضرورت ہے وہ لڑکیوں کو بھی اپنی نے اپنے رویے میں تبدیلی لانی ہوگی تبھی آبروریزی کے واقعات اور معاملات میں کمی آئے گی۔