Urdu News

اہم ترقی پسندشاعر،اورفلم نغمہ نگارجاویداختر کےوالداورمشہورشاعر:جاں نثاراخترؔ  

شاعر جاں نثار اختر

ایجاز زیڈ ایچ

آج 8؍فروری 1914اہم ترقی پسند شاعر، اور فلم نغمہ نگار جاوید اختر کے والد اور مشہور شاعرجاں نثار اخترؔ  کا یومِ ولادت ہے۔

جاں نثار اختر، نام سید جاں نثار حسین رضوی اور اخترؔ تخلص تھا۔ ۸؍فروری۱۹۱۴ کو گوالیار میں پیدا ہوئے ۔ ان کا آبائی وطن خیرآباد (یو پی) ہے۔

جاں نثار نے ابتدائی تعلیم وکٹوریہ کالجیٹ ہائی اسکول گوالیار میں حاصل کی اور وہیں سے ۱۹۳۰ میں میٹرک کا امتحان پاس کرکے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں داخلہ لیا۔۱۹۳۷ میں بی اے (آنرز)اور ۱۹۳۹ میں ایم اے (اردو) کی ڈگریاں حاصل کیں۔ ۱۹۴۰ میں ان کا تقرر وکٹوریہ کالج ، گوالیارمیں اردو لکچرر کی حیثیت سے ہوگیا۔ ۱۹۴۳ میں ان کی شادی صفیہ سے ہوگئی جو اسرار الحق مجازؔ کی حقیقی بہن تھیں۔ ۱۹۴۷ میں ملک آزاد ہوا۔

 گوالیار کے حالات خراب ہونے کی وجہ سے اختر نے ریاست بھوپال میں سکونت اختیار کرلی۔ یہاں انھیں حمیدیہ کالج میں صدر شعبہ اردو وفارسی کی جگہ مل گئی۔ اس وقت صفیہ علی گڑھ میں پڑھاتی تھیں، وہ بھی اسی کالج میں لکچرر ہوگئیں۔

 اختر ترقی پسند تحریک کے سرگرم کارکن تھے۔ حکومت ہند نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندیاں عائد کردیں۔ چوں کہ ترقی پسند تحریک بھی اس پارٹی کی سرگرمیوں کا ایک رخ تھا اس لیے اختر کونوکری سے استعفا دینا پڑا اور انھوں نے بمبئی کی راہ لی۔

صفیہ حمیدیہ کالج، بھوپال میں ملازم رہیں۔ صفیہ، اختر کی جدائی میں کڑھ کڑھ کرتپ دق کے موذی مرض میں مبتلا ہوگئیں۔ اختر اپنی عسیر الحالی کی وجہ سے ان کا خاطر خواہ علاج نہ کراسکے۔

 صفیہ لکھنؤ میں انتقال کرگئیں۔ صفیہ کے خطوط کے دو مجموعے ’’حرف آشنا“ اور ’’زیر لب‘‘ کے نام سے چھپ چکے ہیں۔ جاں نثار اختر بمبئی میں فلموں کے گیت لکھنے لگے، اس سے آمدنی میں بھی اضافہ ہوا اور شہرت بھی ملی۔

 انھیں عارضۂ قلب لاحق ہوگیا اور وہ ۱۸؍ اگست۱۹۷۶ کو بمبئی میں انتقال کرگئے۔ جاں نثار نے شاعری کا ذوق وراثت میں پایا تھا۔

 ان کی ادبی زندگی کا آغاز اور نشوونما علی گڑھ میں ہوئی۔ علی گڑھ کے دوران قیام یہ ’’انجمن اردوئے معلی‘‘ کے سکریٹری رہے اور ایک عرصے تک ’’علی گڑھ میگزین ‘‘ کی ادارت کی۔ ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:

’’سلاسل‘‘، ’’تارگریباں‘‘، ’’نذر بتاں‘‘، ’’جاوداں‘‘، ’’گھر آنگن‘‘، ’’خاک دل‘‘، ’’پچھلے پہر‘‘ ۔ نومبر ۱۹۷۴ میں انھیں ’’خاک دل‘‘ پر نہرو ایوارڈ کا تین ہزار روپے کا انعام ملا۔

 اترپردیش حکومت نے ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں پانچ ہزار روپے کا عطیہ دیا۔ ان کی وفات کے بعد وزیر اعظم نے اپنے فنڈ سے دس ہزار روپے کا عطیہ ان کے خاندان کی امداد کے طور پر دیا اور اتنی ہی رقم حکومت مہاراشٹر نے دی۔

بحوالۂ:پیمانۂ غزل(جلد دوم)،محمد شمس الحق،صفحہ:52

ممتاز شاعر جاں نثاراخترؔ کے یومِ ولادت پر منتخب اشعار بطور اظہارِ عقیدت۔۔۔

اب یہ بھی نہیں ٹھیک کہ ہر درد مٹا دیں

کچھ درد کلیجے سے لگانے کے لیے ہیں

اور کیا اس سے زیادہ کوئی نرمی برتوں

دل کے زخموں کو چھوا ہے ترے گالوں کی طرح

لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے

تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے

سو چاند بھی چمکیں گے تو کیا بات بنے گی

تم آئے تو اس رات کی اوقات بنے گی

یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں

اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں

آہٹ سی کوئی آئے تو لگتا ہے کہ تم ہو

سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو

اشعار مرے یوں تو زمانے کے لیے ہیں

کچھ شعر فقط ان کو سنانے کے لیے ہیں

جب لگیں زخم تو قاتل کو دعا دی جائے

ہے یہی رسم تو یہ رسم اٹھا دی جائے

ہم سے پوچھو کہ غزل کیا ہے غزل کا فن کیا

چند لفظوں میں کوئی آگ چھپا دی جائے

Recommended