یو پی ایس سی سول سروسز امتحانات کے درخواست دہندگان جانتے ہیں کہ کیا چیز داؤ پر کیا ہے۔ ان کے خاندان اور ان کی کمیونٹی میں بہت سے لوگ ان کی طرف امید کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں کیونکہ وہ اکتوبر میں ہونے والے یو پی ایس سی سیول سروسز امتحانات دینے کی تیاری کر رہے ہیں۔ ان نوجوان مسلمانوں کے لیے یہ ایک خاص چیلنج ہے۔
ممبئی میں مرکزی حج کمیٹی آف انڈیا (ایچ سی آئی) کے زیر اہتمام آئی اے ایس اور الائیڈ کوچنگ اینڈ گائیڈنس سیل میں کوچنگ کلاسز میں شرکت کرنے والے 50 سے زیادہ امیدواروں اب بھی بے یقینی کے کیفیت میں ہیں۔
ممبئی کے سعد شیخ نے ہمیں بتایا کہ وہ تیسری بار سول سروسز کا امتحان دے رہے ہیں۔ انہوں نے 2018 میں انجینئرنگ کی ڈگری مکمل کی اور سول سروس کے امتحان کے ضمن میں کوچنگ کے لیے نئی دہلی چلے گئے۔ اس نے 2019 اور 2020 میں کوالیفائی نہیں کیا۔ ان کے والد ٹیکسی ڈرائیور ہیں۔ ان کی ماں گھریلو خاتون ہیں۔ ان کے بھائی نے حال ہی میں مکینیکل انجینئرنگ مکمل کیا اور اب ممبئی میں سوگی میں کام کر رہے ہیں۔
ممبئی سے تعلق رکھنے والے ایک اور امیدوار سلیم حبیب نے بھی تیسری بار یو پی ایس سی کا امتحان دینے کی کوشش کی ۔ سلیم کا تعلق ایک متوسط خاندان سے ہے۔ وہ سول سروسز امتحان کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔ سلیم حبیب نے کہا کہ ان کے والد ایک مذہبی استاد (عالم) ہیں اور ان کی والدہ ایک گھریلو خاتون ہیں۔ ان کے بھائی نے حال ہی میں بی کام مکمل کیا اورممبئی میں کاروبار شروع کیا ہے۔
سلیم حبیب نے کہا کہ بہت سے مسلم امیدوار سول سروس امتحانات کے لیے سخت تیاری کر رہے ہیں۔ مسلم امیدوار نہ صرف امتحانات میں کوالیفائی کرنے کا ہدف رکھتے ہیں بلکہ ٹاپ رینک بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ ہندوستان میں سرکاری ملازم بن سکتے ہیں۔
سلیم حبیب نے کہا کہ مسلم امیدوار احساس کمتری پر قابو پاسکتے ہیں۔ وہ یاد دلاتے ہیں کہ 2019 میں جنید احمد جو کہ بجنور سے تعلق رکھتے ہیں، انہوں نے کہاکہ جنید احمد کی کامیابی کو دیکھ کر دوسرے مسلم امیدوار بھی یوپی ایس سی کے امتحانات میں کامیابی کے کوشش کررہے ہیں اور ماضی میں مسلم امیدواروں کی کامیابی کو دیکھ کر اب مسلم امیدوار سول سروسز کامیاب کرنے کا ہدف رکھتے ہیں۔
یونین پبلک سروس کمیشن (یو پی ایس سی) کے زیر اہتمام سول سروسز امتحانات ہندوستان میں سرکاری شعبے میں بھرتی کے لیے ایک بڑا اور باقل قدر امتحان ہے۔ مسلم امیدوار چند سال سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ یو پی ایس سی کے نتائج کے اعداد و شمار مسلم امیدواروں کے کامیابی کے تناسب میں اضافہ کو ظاہرکررہے ہیں۔
مسلم ماہرین تعلیم کہہ رہے ہیں کہ کمیونٹی کے نقطہ نظر میں بہتری ہے اور وہ ہر سال مسلمانوں کی نمائندگی کو 5 فیصد تک لانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ تاہم کیا یہ ہندوستان میں 15 فیصد آبادی پر مشتمل مسلم آبادی کے لیے بہت حوصلہ افزا نہیں ہے۔
زکوۃٰ فاؤنڈیشن آف انڈیا(Foundation of India) کے سربراہ ڈاکٹر ظفر محمود نے کہا کہ آزادی کے بعد سے 2.5 فیصد کے لگ بھگ تھا، تاہم 2016 کے بعد سے مسلم امیدواراوں کی کامیابی کا تناسب 5 فیصد ہے۔
دانشور ، صحافی اور دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان(Dr Zafarul Islam Khan) نے کہا کہ مسلم امیدواروں کا فیصد زیادہ نہیں ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ آبادی کے حصہ کے مطابق نمائندگی ہوسکتی ہے، وہ جب ہی ممکن ہے جب سول سروسز کے امتحان میں 150 سے زائد مسلم امیدواروں کو منتخب کیا جائے۔
نوجوان آئی پی ایس افسر اور ڈی سی پی زون -1 ناگپور سٹی پولیس نور الحسن(Noorul Hasan) نے کہا کہ یو پی ایس سی کے خواہشمندوں کو اپنے اہداف پر مرکوز ہونا چاہیے۔ فون پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جو امیدوار یو پی ایس سی امتحانات میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں وہ انٹرنیٹ پر مفید مواد تلاش کر سکتے ہیں۔
نور الحسن جو اتر پردیش کے ایک چھوٹے سے قصبے پیلی بھیت سے تعلق رکھتے ہیں اور UPSC CSE-2014میں 625 واں رینک حاصل کیا ہے ، کہتے ہیں کہ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہے۔ انہوں نے خواہش کی کہ ناکامیوں سے کبھی مایوس نہ ہوں کیونکہ سول سروس کا امتحان صبر اور خود اعتمادی کا امتحان ہے۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہندوستانی مسلمان تعلیمی کارواں کے ذریعہ اپنا تعلیمی سفر جاری رکھے ہوئے ہیں اور ابھی منزل بہت دور ہے۔
اسکولی تعلیم میں مسلمان:
ہندوستانی مسلمان اپنی آبادی کے مقابلے میں ملک میں تعلیمی لحاظ سے پسماندہ طبقات سے کافی پیچھے رہے ہیں۔ ہندوستان میں دیگر کمیونٹیوں کے تناسب سے مسلمانوں میں ابتدائی درجے سے ہائر ایجوکیشن تک تعلیمی اداروں میں داخلہ کی شرح سب سے کم ہے۔
این ایس ایس 75 ویں راؤنڈ کی رپورٹ تعلیمی شماریات پر ایک نظر میں 2018(NSS 75th round report Educational Statistics at a Glance, 2018) ملک کے مختلف سماجی و مذہبی گروہوں کی شرح خواندگی کو ظاہر کرتی ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق ہندوستان کی کل آبادی میں 80.6 فیصد مرد اور68.8 فیصد خواتین خواندہ ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کی مجموعی حاضری کا تناسب(Gross attendance ratio ) بنیادی سطح پر 100.1 فیصد ہے تاہم ہندو اور عیسائی کمیونٹیز کا بالترتیب 102.2 فیصد اور 104.5 فیصد ہے۔
وہیں ماضی میں سچر کمیٹی(Sachar Committee) کی رپورٹ میں کہا گیا کہ مسلمان معیاری تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں اور ان کی تعلیمی پسماندگی درج فہرست ذاتوں(SCs) ، درج فہرست قبائل(STs) اور دیگر پسماندہ طبقات(OBC`s) سے بدتر ہے۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ سال 2004-2005 کے دوران مسلمانوں میں ریکارڈ شرح خواندگی 60 فیصد سے زیادہ نہیں تھی۔
تاہم مسلمانوں کی صورتحال پرائمری اور ایلیمنٹری لیول میں کچھ بہتری دکھا رہی ہے۔ ممتاز ماہر تعلیم اور مہاراشٹر کاسموپولیٹن ایجوکیشن سوسائٹی (Maharashtra Cosmopolitan Education Society) پونے کے صدر ڈاکٹر پی اے انعام دار سے رابطہ کیا۔ انعام دار کہتے ہیں کہ مسلم کمیونٹی کی تعلیمی پسماندگی میں پچھلے کچھ سال سے بہتری دیکھی گئی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ کمیونٹی میں 70 فیصد سے زیادہ لڑکیاں اسکولوں اور کالجوں میں پڑھ رہی ہیں۔ تاہم یہ ہندوستان میں دیگر کمیونٹیز کے ساتھ تناسب کے طور پر اب بھی بہت کم ہے۔
وزارت تعلیمMinistry of Educations کے ساتھ کام کرنے والے عہدیدار نیوز 18 کو بتاتے ہیں کہ۔۔’’ ہمیں ملک کی کئی ریاستوں میں اہل اور تربیت یافتہ اساتذہ کی شدید کمی کا سامنا ہے‘‘۔ ڈاکٹر پی اے انعامدار یہ بھی قبول کرتے ہیں کہ ہمارے اسکولوں میں مزید اساتذہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مہاراشٹر کاسمپولیٹن ایجوکیشن سوسائٹی زیادہ اساتذہ کو فنی اور کمپیوٹر تعلیم کی تربیت دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ۔۔ ’’مہاراشٹر کاسمپولیٹن ایجوکیشن سوسائٹی ہم پورے ہندوستان کے 50 اسکولوں کے اساتذہ کو تربیت فراہم کی جائیگی ۔‘‘
ڈاکٹر پی اے انعامدار نے بتایا کہ ہندوستانی مسلمان ملک کی تعمیر میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں اور تعلیم کے ذریعے وہ جو چاہیں حاصل کر سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مسلم طلبا میں کسی بھی طرح احساس کمتری کی ضرورت نہیں ہے۔ پی اے انعامدار بتاتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کے ذریعے مسلم کمیونٹیز ، اعلیٰ تعلیم میں اپنی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم میں سب سے کم نمائندگی:
حالیہ دنوں میں کیے گئے آل انڈیا سروے آن ہائر ایجوکیشن رپورٹس 2019-20(AISHE-2019-20) کے مطابق ملک میں 38.5 ملین طلبا نے ہائر ایجوکیشن میں داخلہ لیا ہے۔ جن میں 14.7 فیصد شیڈولڈ کاسٹ اور 5.6 فیصد شیڈولڈ ٹرائب کے طلبا شامل ہیں۔ وہیں 37 فیصد طلبا دیگر پسماندہ طبقات سے ہیں۔ مسلم طلبا کا تناسب 5.5 فیصد اور 2.3 فیصد دیگر اقلیتی کمیونٹیز سے تھے۔ سال 2018-19 کے دوران 5.2 فیصد مسلم طلبا نے ہندوستان کی مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اعلیٰ تعلیم کے لیے داخلہ لیا۔
معروف ماہر معاشیات اور ایم سی آر ایچ آر ڈی انسٹی ٹیوٹ آف تلنگانہ(MCRHRD Institute of Telangana) کے پروفیسر عامر اللہ خان کا کہنا ہے کہ مسلم طلبا پرائمری اور اپر پرائمری میں بڑی تعداد میں داخلہ لے رہے ہیں۔ وہیں ڈراپ آؤٹ کا تناسب ثانوی اور اعلیٰ تعلیم میں زیادہ ہے۔ عامر اللہ خان ماضی میں تلنگانہ ریاست میں مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی اور تعلیمی حالات پر تحقیقاتی کمیشن کے رکن کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ریاست تلنگانہ میں سدھیر کمیشن رپورٹ(Sudheer Commission Report) نے انکشاف کیا ہے کہ پرائمری اور اپر پرائمری ایجوکیشن میں دیگر کمیونٹیز کے مقابلے میں مسلمان تھوڑے بہتر ہیں لیکن ہائر ایجوکیشن میں ان کا برا حال ہے۔ مسلمانوں میں ڈراپ آؤٹ کا تناسب بہت زیادہ ہے اور جب اعلیٰ تعلیم کی بات آتی ہے تو مسلم تناسب انتہائی کم ہوتا ہے۔ تعلیم بند کرنے کی بہت سی وجوہات ہیں۔ سب سے نمایاں وجہ خراب مالی حالت ہے۔ تعلیم میں دیہی اور شہری فرق اور صنفی تفاوت موجود ہیں۔