Urdu News

بیکل اتساہی کی شاعری میں ہندوستانیت، یوم ولادت پر خاص تحریر

بیکل اتساہیؔ

آج 19؍جولائی 1930اردو شاعری کو ہندی سے قریب لانے کے لئے معروف شاعربیکل اتساہیؔ کا یومِ ولادت ہے۔

بیکل اتساہی ایک مشہور شاعر تھے جنھوں نے اپنی شاعری میں اودھی زبان کا وسیع استعمال کیا۔ وہ 19؍جولائی 1930 کو محمد شفیع خان کے یہاں ضلع گونڈا کے بلرام پور میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام لودھی محمد جعفر خان تھا۔ بیکل کو ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو نے اتساہیؔ تخلص دیا تھا۔

 یہ گونڈا میں کانگریس پارٹی کے انتخابی پروگرام کے دوران ہوا ، جس میں بیکل وارثی نے “کسان بھارت کا” اشعار بیان کرکے پنڈت نہرو کا خیرمقدم کیا۔ نہرو نے حیرت زدہ ہو کر کہا ، “یہ ہمارا اتساہی شاعر ہے”۔ اس دن سے ، وہ ادبی دنیا میں بیکال اتساہی کے نام سے جانے جانے لگے۔

 ان کی سب سے مشہور نظم ” اے میری جانِ غزل ” ہے۔ بیکل کسی وقت راجیہ سبھا کے ممبر تھے۔ 1976 میں ، ادب کے میدان میں انہیں پدم شری سے نوازا گیا۔ 3؍دسمبر 2016 کو ان کا انتقال ہوگیا۔

ممتاز شاعر بیکل اتساہیؔ کے یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت۔۔۔

عزم محکم ہو تو ہوتی ہیں بلائیں پسپا

کتنے طوفان پلٹ دیتا ہے ساحل تنہا

وہ تھے جواب کے ساحل پہ منتظر لیکن

سمے کی ناؤ میں میرا سوال ڈوب گیا

الجھ رہے ہیں بہت لوگ میری شہرت سے

کسی کو یوں تو کوئی مجھ سے اختلاف نہ تھا

وہ میرے قتل کا ملزم ہے لوگ کہتے ہیں

وہ چھٹ سکے تو مجھے بھی گواہ لکھ لیجے

لوگ تو جا کے سمندر کو جلا آئے ہیں

میں جسے پھونک کر آیا وہ مرا گھر نکلا

خدا کرے مرا منصف سزا سنانے پر

مرا ہی سر مرے قاتل کے روبرو رکھ دے

اس کا جواب ایک ہی لمحے میں ختم تھا

پھر بھی مرے سوال کا حق دیر تک رہا

چاندی کے گھروندوں کی جب بات چلی ہوگی

مٹی کے کھلونوں سے بہلائے گئے ہوں گے

ہوائے عشق نے بھی گل کھلائے ہیں کیا کیا

جو میرا حال تھا وہ تیرا حال ہونے لگا

یوں تو کئی کتابیں پڑھیں ذہن میں مگر

محفوظ ایک سادہ ورق دیر تک رہا

عشق وشق یہ چاہت واہت من کا بھلاوا پھر من بھی اپنا کیا

یار یہ کیسا رشتہ جو اپنوں کو غیر کرے مولیٰ خیر کرے

فرش تا عرش کوئی نام و نشاں مل نہ سکا

میں جسے ڈھونڈھ رہا تھا مرے اندر نکلا

بدن کی آنچ سے سنولا گئے ہیں پیراہن

میں پھر بھی صبح کے چہرے پہ شام لکھتا ہوں

نہ جانے کون سا نشہ ہے ان پہ چھایا ہوا

قدم کہیں پہ ہیں پڑتے کہیں پہ چلتے ہیں

ہر ایک لحظہ مری دھڑکنوں میں چبھتی تھی

عجیب چیز مرے دل کے آس پاس رہی

فرشتے دیکھ رہے ہیں زمین و چرخ کا ربط

یہ فاصلہ بھی تو انساں کی ایک جست لگے

Recommended