ذوالفقار علی بخاری ، پاکستان
سب سے پہلے مادری زبان کی اہمیت کے حوالے سے ایک قصہ سنانا چاہوں گا ۔
یہ روس کے عالمی شہرت یافتہ مصنف رسول حمزہ توف کی کتاب ’’میراداغستان‘‘میں بیان ہوا ہے ، اسے دل سے پڑھیں۔
ایک دفعہ میں پیرس کے ادبی میلے میں شریک ہوا تو وہاں میری آمد کی خبرسن کر ایک مصور مجھ سے ملنے آیا اور کہا :
“میں بھی داغستانی ہوں، فلاں گاؤں کا رہنے والا ہوں لیکن تیس برس سے یہاں فرانس میں ہوں۔”
داغستان واپسی پر میں نے اس کے عزیزوں اور ماں کو تلاش کیا۔ اس مصور کے بارے میں اس کے خاندان کو یقین تھا کہ وہ مر چکا ہے۔ مصور کی ماں یہ خبر سن کر بہت حیران ہوئی۔ اس ماں کو علم ہی نہ تھا کہ اس کا بیٹا ابھی تک زندہ ہے۔ میں نے مصور کی ماں کو یقین دلاتے ہوئے کہا: “آپ کا بیٹا واقعی زندہ ہے اور فرانس میں خوش و خرم ہے۔”
یہ سن کر اس کی ماں بہت روئی۔ اس دوران مصور کے رشتہ داروں نے اس کے وطن چھوڑنے کا قصور معاف کر دیا تھا کیونکہ انہیں یہ جان کر مسرت ہوئی کہ ان کا کھویا ہوا عزیز ابھی زندہ ہے۔مصور کی ماں نے مجھ سے پوچھا:
“بتاؤ … اس کے بالوں کی رنگت کیسی ہے ؟ اس کے رخسار پر جو تِل تھا کیا اب بھی ہے ؟ اس کے بچے کتنے ہیں ؟”
اور پھر دفعتاً مصور کی ماں نے پوچھا :
’’رسول ! تم نے میرے بیٹے کے ساتھ کتنا وقت گزارا؟‘‘
میں نے کہا: “ہم بہت دیر بیٹھے رہے اور داغستان کی باتیں کرتے رہے۔”
پھر اْس کی ماں نے مجھ سے ایک اور سوال کیا :
’’اْس نے تم سے بات چیت تو اپنی مادری زبان میں کی ہوگی نا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ہم نے ترجمان کے ذریعے بات چیت کی۔ میں ازبک بول رہا تھا اور وہ فرانسیسی۔ وہ اپنی مادری زبان بھول چکا ہے۔”
مصور کی بوڑھی ماں نے یہ سنا اور سر پر بندھے سیاہ رومال کو کھول کر اپنے چہرے کو چھپا لیا جیسے پہاڑی علاقوں کی ماںْیں اپنے بیٹے کی موت کی خبر سن کر اپنے چہروں کو ڈھک لیتی ہیں۔ اس وقت اوپر چھت پر بڑی بڑی بوندیں گر رہی تھیں، ہم داغستان میں تھے، غالباً بہت دْور دنیا کے اْس سرے پر پیرس میں داغستان کا وہ بیٹا بھی جو اپنے قصور پر نادم تھا، آنکھوں سے برستے ان انمول آنسوؤں کی آواز سن رہا ہوگا۔پھر ایک طویل خاموشی کے بعد ماں نے کہا :
’’رسول ! تم سے غلطی ہوئی۔ میرے بیٹے کو مرے ہوئے ایک مدت بیت گئی۔ جس سے تم ملے وہ میرا بیٹا نہیں ؟ کوئی اور ہو گا کیونکہ میرا بیٹا اس زبان کو کس طرح بھلا سکتا ہے جو میں نے اسے سکھائی تھی۔”
میں حیرت اور صدمے سے کوئی جواب نہ دے سکا تو اس بوڑھی عظیم ماں نے کہا:
“رسول۔۔۔ اگر وہ اپنی مادری زبان بھول چکا ہے تو میرے لئے وہ زندہ نہیں، مر چکا ہے۔”
اس واقعے کو سمجھنے کے بعد یہ احساس ہو چکا ہے کہ کسی زبان کی بقاء کا راز کیا ہے۔
جب تک انفرادی سطح پر اس حوالے سے کوشش نہیں ہوگی اور ہم اپنے بچوں کو مادری زبان سے متعارف اور اس کی اہمیت نہیں بتائیں گے تب تک مادری زبانوں کو زندہ رکھنے کے حوالے سے کوئی کوشش کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے گی۔
جو اپنی مادری زبان بھول گیا گویا وہ زندہ ہوتے ہوئے بھی کسی کام کا نہیں ہے۔
آپ نے یہ بات تو ضرور سن رکھی ہوگی کہ ’’ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو۔‘‘
اس لیے ہر شخص کو کم سے کم دو زبانیں لازمی سیکھنی چاہیے تاکہ سیکھی جانے والی زبان کی بقاء کو کوئی خطرہ لاحق نہ ہو۔
اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ زبانیں پاپوا نیو گنی میں بولی جاتی ہیں ۔جہاں کل زبانوں کا 12 فیصد یعنی 850 زبانیں بولی جاتی ہیں۔800 زبانوں کے ساتھ انڈونیشیا دوسرے، 500 کے ساتھ نائیجیریا تیسرے، 425 کے ساتھ بھارت چوتھے اور 311 کے ساتھ امریکا پانچویں نمبر پر ہے۔آسٹریلیا میں 275 اور چین میں 241 زبانیں بولی جاتی ہیں۔دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چینی ہے جسے دنیا کی 16 فیصد آبادی یعنی 1 ارب 20 کروڑ افراد بولتے اور سمجھتے ہیں۔اس کے بعد 42 کروڑ 50 لاکھ ہندی، 43 کروڑ ہسپانوی، 34 کروڑ انگریزی اور 20 کروڑ افراد عربی بولتے ہیں۔ بولی جانے والی زبانوں میں پنجابی گیارہویں اور اردو انیسویں نمبر پر ہے۔ماہرین لسانیات کے مطابق پاکستان بھر میں مختلف لہجوں کے فرق سے74زبانیں بولی جا رہی ہیںجس میں لگ بھگ 48فیصد پاکستانی پنجابی بولتے ہیں۔دنیا میں اس وقت تقریبا َ سات ہزار کے قریب زبانیں بولی جا رہی ہیں۔
نومبر1999میں یونیسکو نے مقامی زبانوں کے احیاء و بقا کے لیے ’’ انسانی ثقافتی ورثہ کاتحفظ‘‘ کی جنرل کانفرنس کے موقع پر 21فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ پاکستان میں راقم السطور کی تحقیق کے مطابق مادری زبانوں( پنجابی، سرائیکی، پشتو، بلوچی، کشمیری، سندھی ) میں بہت کم ادب اطفال رسائل شائع ہو رہے ہیں جو المناک صورت حال کو ظاہر کرتا ہے۔مادری زبان میں تعلیم کے حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح بچوں میں سیکھنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے اور وہ تنقیدی انداز فکر کے حامل بھی بنتے ہیں۔ہمارے ہاں مادری زبانوں میں بہت کم تعلیم دی جا رہی ہے۔
پاکستان میں 21فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منانے کے لیے تقریبات کا انعقاد ہوتا ہے لیکن حیران کن طور پر ایسے اقدامات نہیں کیے جا رہے ہیں کہ بچوں کو وسیع پیمانے پر اپنی مادری زبان پڑھنے، لکھنے اور بولنے کے لیے قومی سطح پر مواقع فراہم کیے جا رہے ہوں۔اس حوالے سرکاری سطح پر سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے اور کوشش کی جانی چاہیے کہ ادب اطفال ادیبوں کو اس حوالے سے ذمہ داری دی جائے کہ وہ بچوں کو مادری زبان سیکھنے، بولنے اورپڑھنے پر مائل کریں۔راقم السطور کو ملنے والی معلومات کے مطابق اس وقت بچوں کے لیے ’’ پکھیرو‘‘کے نام سے رسالہ پنجابی زبان کے فروغ کے لیے اہم ترین کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ بچوں کا معیاری رسالہ ہے جو کئی برس سے شائع ہو رہا ہے۔اسی طرح سے ’’مرلن جونئیر‘‘ سندھی زبان میں شائع ہو رہا ہے۔دیگر زبانوں کے حوالے سے کوئی مستند اطلاع نہیں مل سکی ہے کہ بچوں کے لیے رسالہ شائع کیا جا رہا ہے۔یہ ایک سنگین صورت حال ہے کہ پاکستان میں اردو کو سرکاری سطح پر نافذ کرنے کی جہدوجہد ہو رہی ہے لیکن صورتحال یہ ہے کہ دیگر زبانوں کے فروغ کے لیے بھی سنجیدہ کوشش نہیں ہو رہی ہے۔
اکادمی ادبیات پاکستان کو سال میں کم سے کم ایک بار سرائیکی، پنجابی، پشتو، سندھی اور بلوچی زبان کے ساتھ دیگر زبانوں میں بچوں کا رسالہ شائع کرانا چاہیے تاکہ قومی سطح پر یہ پیغام جائے کہ حکومت ہر زبان کی بقاء کے لیے سنجیدہ ہے ۔ اگر ہر سال 21فروری کے موقع پر ان رسائل کی اشاعت کو یقینی بنا دیا جائے تو یہ بہت بڑا انقلابی اقدام ثابت ہوگا۔ جامعات میں بھی کم سے کم دو سے تین طلبہ کو ایم فل اور پی ایچ ڈی کے لیے مادری زبانوں کے انتخاب پر اسکالر شپ دینی چاہیے اورسرکاری سطح پر ان طلبہ کے لیے نوکریوں کا بندوبست ہونا چاہیے۔انگریزی میڈیم اسکولز میں بھی مادری زبانوں میں تقریری اورتحریری مقابلوں کا سلسلہ شروع ہونا چاہیے تاکہ طلبہ اپنی مادری زبان کو بولنے میں شرمساری محسوس نہ کریں اور بوقت ضرورت اپنی بات خود اعتمادی سے کہہ سکیں۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مادری زبان کا خاتمہ تہذیب و تمدن اور ثقافت کا بھی خاتمہ ہے ۔اس لیے بچوں کو مادری زبان میں تعلیم کے ساتھ مادری زبان میں ادب فراہم کرنا بے حد ضروری ہے تاکہ ان کے خاتمے کے خطرات کم ہو سکیں۔راقم السطور کے نزدیک مادری زبانوں کی بقاء ادب اطفال میں پوشیدہ ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ بچوں کواس سے جوڑا جائے تاکہ وہ اس کی اہمیت سمجھتے ہوئے بولنا ، پڑھنا اور لکھنا جاری رکھیں۔
رجنی کانت کی ’جیلر‘ جمعرات کو ریلیز ہوئی۔ فلم کو پہلے دن سینما گھروں میں…
مضمون نگار: زبیر قریشی میری ماٹی، میرا دیش مہم نے وسطی کشمیر کے گاندربل ضلع…
جموں و کشمیر کی یونین ٹیریٹری میں تنظیم نو کے بعد ہونے والی اہم تبدیلیوں…
شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ سے تعلق رکھنا والا محمد مقبول ڈار نامی قالین…
زعفران کی جی آئی ٹیگنگ کے بعد، کسانوں نے اس کی پیداوار میں اضافہ کیا…
سری نگر میں، لال چوک پر نئے تجدید شدہ تاریخی کلاک ٹاور ایک خوشگوار حیرت…