Urdu News

بہار میں اردو کے فروغ کے مشن میں اساتذہ اور نوجوانوں کی شمولیت بھی ضروری: کامران غنی

کامران غنی

بہار میں اردو کے تعلق سے لوگ بیدار ہو رہے ہیں، یہ نیک فال ہے۔ امیر شریعت کے وصال کے بعد امارت شرعیہ کی تحریک ماند پڑتی نظر آ رہی تھی لیکن اب امارت بھی پھر سے فعال ہو گئی ہے. دوسرے افراد اور اداروں کی طرف سے بھی نشستیں ہو رہی ہیں۔اردو کے مسائل پر سنجیدہ گفتگو بھی ہو رہی ہے۔ روزانہ اخبارات میں فروغ اردو کے تعلق سے بیانات بھی آ رہے ہیں۔ اردو کے لیے اہل اردو کی یہ فکرمندی اطمینان بخش ہے۔ تاہم کوشش اس بات کی ہونی چاہیے کہ گفتگو محض "نشستند و گفتند و برخاستند" تک سمٹ کر نہ رہ جائے۔

 بہار میں اردو کے حوالے سے جتنی بھی کوششیں ہو رہی ہیں اس کا سب سے کمزور پہلو یہ ہے کہ اس میں اساتذہ اور نوجوانوں کی شمولیت نہ کے برابر ہے۔ جو لوگ اردو کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں وہ تکنیکی سطح پر جانتے ہی نہیں ہیں کہ پیچ ہے کہاں۔ نیز اردو والوں کا آپس میں اشتراک نہ ہونا بھی مسائل کے حل کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ان باتوں کا اظہار ایک اردو دوست اور مضمون نگار کامران غنی صبا نے کیا ہے۔

 انہوں نے اردو کے حوالے سے بہار میں تحریک کا مزید ذکر کرتے ہوئے کہا کہ سال 2018ء میں جب این آئی او ایس نے بطور ذریعہ تعلیم اردو کو اپنے نصاب سے ہٹا دیا تھا تو اس وقت نہ صرف بہار بلکہ پورے ہندوستان کے محبان اردو میں زبردست بے چینی تھی۔ این آئی او ایس کے ذمہ داران سے گفتگو کے ذریعہ مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن نتیجہ صفر رہا۔ نوجوانوں کی ایک ٹیم دانشوران اردو اور اردو اداروں کے ذمہ داران سے مل کر انہیں اس اہم مسئلہ کے حل کے لیے آگے لانے کی کوشش کرتی رہی لیکن سوائے امتیاز احمد کریمی (سابق ڈائریکٹر اردو ڈائریکٹوریٹ، پٹنہ) کے کسی نے کوئی مثبت پیش قدمی نہیں کی۔ یقیناً سرکاری اداروں کے ذمہ داران کی اپنی کچھ مجبوریاں ہوتی ہیں لیکن امتیاز احمد کریمی قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے ڈائرکٹر این آئی او ایس کو خط لکھ کر اردو کو بطور ذریعہ تعلیم دوبارا نصاب میں داخل کرنے کی گزارش کی۔ بعد میں اردو ٹیچر ایسو سی ایشن نے پٹنہ ہائی کورٹ میں مقدمہ دائر کیا۔

 وکیل کی فیس کا مسئلہ کھڑا ہوا تو اس وقت بھی اردو کے لیے بڑے بڑے دعوے کرنے والے لوگ بیک فٹ پر نظر آئے۔ بہرحال چند نوجوانوں کا جنون سرخرو ہوا اور فیصلہ اردو کے حق میں آیا۔ این آئی او ایس کے ذریعہ ٹریننگ حاصل کرنے والے لاکھوں اساتذہ نے چین کا سانس لیا۔ لیکن افسوس کہ اتنی بڑی کامیابی کے بعد اردو والوں نے نہ تو اردو ٹیچر ایسو سی ایشن کے فعال نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے دو لفظ خرچ کیے، نہ ہی اتنی بڑی اور اہم خبر کو کوئی اہمیت ہی دی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ابھی اس وقت بہار کے اسکولوں سے اردو کو بطور لازمی مضمون ختم کرنے کا مسئلہ سرخیوں میں ہے۔ بہار اردو ٹیچر ایسو سی ایشن نے ایک بار پھر عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ پٹنہ ہائی کورٹ نے تین ماہ کا وقت دے کر حکومت کو اردو کے تعلق سے اپنا مو?قف واضح کرنے کے لیے کہا ہے۔

انہوں نے آخر میں بہار اردو ٹیچرس ایسو سی ایشن کے سکریٹری محمد شفیق اور ایسوسی ایشن کے اراکین مبارکباد کے مستحق ہیں کہ وہ اپنی ملازمت داؤ پر لگا کر اردو کے حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ ایسے میں کیا ہماری یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ انہیں کم از کم اخلاقی تعاون ہی پیش کریں؟

Recommended