شعبہ اردو،جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام سجاد ظہیر یادگاری خطبے کا انعقاد
نئی دہلی ،14مارچ
شعبہ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام سجاد ظہیر یادگاری خطبے کا انعقاد کیا گیا۔ یہ مؤقر خطبہ بزرگ ادیب اور ماہر اقبالیات پروفیسر عبدالحق نے شعبہ تاریخ و ثقافت، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے خوبصورت سمینار ہال میں ”اقبال اور نسل نو“ کے عنوان سے پیش کیا۔
انھوں نے کہا کہ اقبال کے وجود نے پورے بر صغیر کو تفاخر بخشا ہے۔ اقبال رومی، سعدی اور حافظ سے بھی بڑے شاعر ہیں۔ انھوں نے اس خطبے میں اقبال اور نسل نو کے تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اقبال ہی وہ شاعر ہے جو ہماری قومی و ملی زندگی کی ہر رہ گزر کو روشن کرتا ہے۔
پوری دنیا میں بیسویں صدی کے سو برس میں کسی شاعر کا ایسا دبدبہ، ایسا کلام اور افکار و اذہان پر ایسا اثر دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔ یہ افتخار اقبال کے وسیلے سے صرف اردو کو ملا ہے، جس میں اقبال جیسے شاعر نے اپنا انقلاب آفریں کلام پیش کیا ہے۔ اقبال اردو ہی نہیں ہندوستان کی تمام زبانوں میں سب سے بڑے انقلابی شاعر ہیں۔
اقبال کو اشتراکی انقلاب کا ایسا گہرا شعور تھا جو مارکس اور اینگلس کے یہاں بھی نہیں پایا جاتا۔ دنیا کے کسی شاعر نے فکر و فلسفہ اور آرٹ کی ایسی ہم آہنگی نہیں پیدا کی جیسی اقبال نے پیش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں اقبال کے متن کا مطالعہ آرٹ کے تقاضوں کے ساتھ ساتھ فکر اور فلسفے کی روشنی میں بھی کرنا چاہیے۔
مہمان مقرر نے سلسلہئ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ کلام اقبال کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں سب سے زیادہ نوجوانوں سے خطاب کیا ہے۔ انھوں نے سامراج کے ماتحت ہندوستان میں استعمار کے خلاف نوجوانوں کو جس انقلاب کی طرف دعوت دی ہے وہ یقینا ایسی جسارت ہے جو اقبال سے پہلے کسی اور شاعر کے یہاں نہیں پائی جاتی ہے۔
نوجوانوں سے اقبال کو خاص توقع اور بے پناہ امیدیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے کلام میں اسماعیل اور حسینؓ کو آئیڈیل کے طور پر پیش کیا ہے۔ جہاں اردو کے دیگر شعرا نے کربلا کو ایک استعارے کے طور پر برتا وہیں اقبال نے اسے حقیقت ابدی قرار دیا ہے۔
اس جلسے کے مہمان خصوصی ڈین فیکلٹی آف ہیومینٹیز اینڈ لینگویجز، جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر محمد اسحٰق تھے۔ خطبہئ صدارت پیش کرتے ہوئے صدر شعبہ پروفیسر احمد محفوظ نے کہا کہ آج کا یہ خطبہ اقبال کے لیے خراج عقیدت اور مہمان مقرر کے لیے خراج تحسین ہے۔
بلاشبہ اردو دنیا کی اٹھارہویں صدی ’میر‘، انیسویں صدی ’غالب‘ اور بیسویں صدی ’اقبال‘ کے نام سے منسوب ہے۔ صدارتی کلمات پیش کرتے ہوئے صدر شعبہ پروفیسر احمد محفوظ نے مزید کہا کہ اقبال کی عظمت اور بزرگی میں عقیدت کا بڑا دخل ہے لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ اقبال کو صرف شاعر کی حیثیت سے دیکھا جائے تب بھی ان کے مقام کے آس پاس کوئی دوسرا شاعر نظر نہیں آتا۔
اقبال کے یہاں کئی اسالیب پائے جاتے ہیں اور اقبال ان تمام اسالیب میں اپنی پہچان قائم رکھتے ہیں۔ خطبے کے کنوینر پروفیسر شہزاد انجم نے کہا کہ پروفیسر عبدالحق کی شناخت ماہر اقبالیات کی ہے اور ان کی تقریباً ساٹھ کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
پروفیسر شہزاد انجم نے یادگاری خطبے کی مناسبت سے سجاد ظہیر کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ترقی پسند تحریک کو جلا بخشنے اور کمیونسٹ نظریات کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
سجاد ظہیر کی پوری زندگی ایثار اور قربانی کی دستاویز ہے۔ پروگرام کا آغاز ڈاکٹر شاہ نواز فیاض کی تلاوت اور اختتام ڈاکٹر مشیر احمد کے اظہار تشکر پر ہوا۔
اس موقعے پر پروفیسر خالد محمود، پروفیسر توقیر احمد خاں، پروفیسر محمد مظہر(دہلی یونیورسٹی، شعبہئ معاشیات)، پروفیسر زاہد اشرف، ڈاکٹر شکیل اختر، پروفیسر خالد جاوید،پروفیسر کوثر مظہری، پروفیسر ندیم احمد، پروفیسر عمران احمد عندلیب، پروفیسر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمد مقیم، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر ساجد ذکی فہمی، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر راہین شمع، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ اور ڈاکٹر خوشتر زریں ملک کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالر اور طلبہ و طالبات موجود تھے۔