تعارف و تبصرہ/ شکیل رشید
کسی ادبی پرچے کےمعیار کا اندازہ اس کے مواد سے ہوتا ہے ، اگرمواد اچھا ہے تو پرچہ معیاری ہے ، اور اگر مواد اچھا نہیں ہے تو پرچہ غیر معیاری ہے ، اس میں کوئی اگر مگر نہیں ہے ۔ معیار کا تعلق کبھی بھی کسی پرچے کی مقبولیت یا تعدادِ اشاعت سے نہیں رہاہے ، اس کا تعلق ہمیشہ بہترین مضامین ، لاجواب شاعری اور بے مثال فکشن سے رہا ہے ، اور آئندہ بھی یہ تعلق رہے گا ۔ اردو کے جو ادبی رسائل شائع ہو رہے ہیں ، ان میں ، جنہیں میں معیاری مانتا ہوں ، ’’ اثبات ‘‘ کا ایک خاص مقام ہے ۔ اور اس کا سبب صرف اور صرف اس کا مواد ہے ۔ مثال ’’ اثبات ‘‘ کے تازہ شمارہ نمبر ۳۵کی لے لیں ۔ اس شمارےمیں بھی ، دوسرے ادبی رسائل ہی کی طرح غزلیں ، نظمیں ، افسانے اور مضامین ہیں ، لیکن یہ تمام اصناف دوسرے ادبی رسائل یا غیر معیاری ادبی رسائل کے مواد سے کچھ مختلف ہیں ، اس معنیٰ میں کہ ان کے انتخاب میں’ سہولت ‘ سے کام نہیں لیا گیا ہے ،’ محنت ‘ کی گئی ہے ۔ اور کوشش یہ کی گئی ہے کہ ’ مال ‘ جو بھی ہو ’ بھرتی ‘ کا نہ ہو ۔ کوئی بھی ’ مال ‘ اس وقت ’ بھرتی ‘ کا بنتا ہے ، جب صرف لکھنے والے کا نام ، کسی مضمون ، افسانے یا کلام کی اشاعت کا سبب بنتا ہے ، تحریر کامعیار نہیں ۔ بات معیار کی چلی ہے تو یہ ذکر ضروری ہے ، کہ تحریر معیاری ہو یا غیر معیاری ، اختلاف کا دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے ۔ اس شمارے کی بھی کسی یا تمام تحریروں سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ، یہ قاری کا ایک جمہوری حق ہے ، اسے کوئی نہیں چھین سکتا ۔ اس شمارے کا اداریہ ’’ نادیدہ قاری کے نام چوتھا خط‘‘ ہی لے لیں ، اگر کچھ پڑھنے والے اس سے مکمل اتفاق کریں گے ، تو کچھ ایسے بھی ہوں گے جنہیں اس سے کچھ اختلاف بھی ہوگا ۔ یہ اداریہ فکشن پر اس فکری اور نظری بحث کو ، جس کا آغاز ’’ پہلے خط ‘‘ سے ہوا تھا ، آگے بڑھاتا ہے ۔ اس خط میں بھی ، پہلے کے اداریوں کی طرح ، ’’ دلچسپی ‘‘ اور ’’ فکشن کی قرات ‘‘ کے مابین کسی تعلق کے ہونے یا نہ ہونے پر بامعنیٰ بحث ہے ، جس کی کچھ باتوں سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کچھ سے نہیں ۔ مثلاً اداریہ میں نوبل انعام یافتہ ناول نگار گاؤژینگیان کا ایک جملہ نقل کیا گیا ہے ، ’’ ادب ایک ناگزیر انسانی سرگرمی ہوتا ہے جس میں قاری اور مصنف دونوں اپنی مرضی سے مصروف ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ، ادب کو عوام الناس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ۔‘‘ مذکورہ جملہ ادا کر کے ( یا لکھ کر ) نوبل انعام یافتہ ناول نگار نے ادب کو ’ خواص ‘ کے لیے وقف کر دیا ہے ، لیکن کیا قاری ( اور مصنف بھی ) عوام الناس سے نہیں ہو سکتا ؟ اگر ہو سکتا ہے تو ادب کیوں عوام الناس سے سروکار نہیں رکھ سکتا ؟ ایسے ہی کئی سوالات اس بحث سے اٹھتے ہیں ۔ اس بار کے خط میں مدیر اشعر نجمی نے ، نقادوں کو ، ایک دلچسپ( میری نظر میں)نصیحت کی ہے ، ’’نقاد کا کام اب زیادہ مشکل ہو گیا ہے ۔ اسے دھند سے پرے بھی دیکھنا ہے اور خود دھندلکا پیدا کرنے سے بچنا بھی ہے ۔‘‘ یہ نصیحت ادیبوں کی گروہ بندی اور ایک دوسرے کو پروموٹ کرنے کے تناظر میں ہے ۔ لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ اکثر نقاد ہی گروہ بندیوں کو ہوا دیتے اور اُن ادیبوں کے پروموشن میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو پروموشن کے لائق نہیں ہوتے ہیں ۔ میرے خیال میں نقادخود ، چند ایک کو چھوڑ کر ، اپنی تحریروں سے ، بشمول مکتبی تنقید اور اکیڈمک پیپر ، اس ’’ شر ‘‘ کو پھیلانے اور نااہلوں کو آگے بڑھانے کے ’’ مجرم ‘‘ ہیں ۔ اشعر نجمی لکھتے ہیں ،’’ اپنی جمہوریت کو وسعت دینے کی قیمت ادب کو ادا کرنی پڑے گی ‘‘، میں اس میں تھوڑا سا ترمیم کیے دیتا ہوں ،’’ قیمت ادب کو ادا کرنی پڑ رہی ہے ۔‘‘ اس خط نے جو بحث شروع کی ہے امید ہے کہ اس پر سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہے گا ۔
اس شمارہ میں اشعر نجمی نے اپنے ایک ناول ’’ صفر کی توہین ‘‘ پر ’’ حاصلِ مطالعہ ‘‘ کے عنوان سے ایک ساتھ چار مضامین شائع کر کے خودکو نیاز فتح پوری ، شمس الرحمٰن فاروقی اور زبیر رضوی جیسے ’’ ثقہ مدیران ‘‘ کی صف میں شامل کر لیا ہے ۔ یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں ، اشعر نجمی نے اپنے ناول پر ، اپنے ہی پرچے میں ، ایک ساتھ چار مضامین شائع کرنے کا جواز یہی دیا ہے ؛’’ اگر ( مذکورہ ثقہ مدیران ) اپنی تخلیقات اور کتابوں پر مضامین اپنے پرچے میں شائع کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟ ‘‘ویسے نہ اس سوال کی ضرورت تھی اور نہ ہی جواز کی ، یہ چاروں ہی مضامین ایک ساتھ شاید ہی کسی دوسرے ادبی پرچے میں شائع نہ ہوتے( کیونک اکثر ادبی پرچے گروہ بندی پر ایمان رکھتے ہیں ) اس لیے اگر ’’ اثبات ‘‘ میں شائع ہو گئے تو اچھا ہی ہوا ۔ خالد جاوید کا مضمون ’’ اردو کا پہلا فلسفیانہ ناول ‘‘ طویل ہے ، کوئی ۴۲صفحات پر پھیلا ہوا ، ناول کو فلسفے کے ساتھ ریاضی اور سائنسی نظر سے جانچتا ہوا ۔ یہ ایک وقیع مضمون ہے ، لیکن اس میں اتنے ’علوم ‘ کا تذکرہ کر دیا گیا ہے کہ پڑھنے والے کو یہ مغالطہ ہونے لگتا ہے کہ وہ کسی ناول پر کوئی تنقید پڑھ رہا ہے یا ریاضی کی کسی تھیوری کو سمجھ رہا ہے یا یہ مضمون زمان و مکان ( وقت ) کے فلسفے پر ہے ۔ اس مضمون سے لطف لینے کے لیے یہ ضروری ہے کہ پڑھنے والا مغالطے کے حصار سے باہر نکل آئے ۔ اس مضمون کو ، ایک ناول کی تنقید کے طور پر ، پڑھنے کے لیے ، خود کو مغالطوں سے باہر نکالنے کے لیے ، مجھے کوشش کرنی پڑی ، لیکن اس کے بعد منزل آسان تھی اور مطالعہ بھی پُر لطف ۔ شافع قدوائی کا مضمون ’’ وجودی سچ اور نئی اخلاقی کائنات کا حسی بیانیہ ‘‘بھی عمدہ ہے ، لیکن یہ خالص مکتبی ہے ، اس لیے اسے پڑھنے کے لیے ذہن کو ایک مخصوص سانچے میں ڈھالنا پڑتا ہے ۔ ابرار مجیب کا مضمون ’’ اکیسویں صدی کا خدا ‘‘ مختصر مگر جامع ہے ۔ رویندر جوگلیکر نئے لکھنے والوں میں تیزی سے ابھر کر سامنے آئے ہیں ، ان کا مضمون ’’ صفر کی توہین: جمود کی ردِّتشکیل ‘‘ ناول کی تفہیم کو آسان بناتا ہے ۔ اچھی بات یہ ہے کہ ان چاروں ہی نے ناول کو ، الگ الگ پہلوؤں سے سمجھنے کی کوشش کی ہے ، اس لیے وہ اسے الگ الگ زمروں میں رکھتے ہیں ۔ خالد جاوید کے لیے یہ اردو کا پہلا ’’ فلسفیانہ ناول ‘‘ ہے ، شافع قدوائی اسے ’’ وجودیت ‘‘ سے جوڑتے ہیں ، ابرار مجیب کا کہنا ہے کہ یہ ناول موضوع کی اکائی پر اصرار نہیں کرتا ، اور رویندر جوگلیکر ناول کے موضوع کو ’’ انسان کے اندرون میں ذہنی اور نفسیاتی بحران کا شکار ہونے کے اردگرد ‘‘ بتاتے ہیں ، گویا کہ اس ناول کی قرات مختلف تناظر میں کی جا سکتی ہے ، کسی ایک متعین ڈھانچے میں ہی نہیں ۔ اسےایک ایک اچھے ناول کی خوبی کہا جا سکتا ہے ۔
اس شمارے کی ایک خاص چیز ’’ بیس بلڈوذر نظمیں ‘‘ ہیں۔ کُل سولہ نظمیں ہیں ان میں اردو والوں کی صرف دو نْطمیں ہیں!نظموں کا تعارف کراتے ہوئے اشعر نجمی لکھتے ہیں، ’’ گزشتہ دنوں ہم نے وطن عزیز میں بلڈوز کو ٹینک میں بدلتے دیکھا ۔ وہ بلڈوزر جس کا ستعمال اب تک عموماً تعمیری کاموں کو انجام دینے کے لیے کیا جاتا رہا ، اس کی تقلیب ایک ایسے ٹینک کی شکل میں ہوئی ہے جو جمہوریت ، حقوق انسانی ، سیکولرزم ، انسان دوستی اور فلاحی معاشرے کو روند کر اس کی جگہ جبر و دہشت کا عالیشان محل کھڑا کرنے کے لیے زمین ہموار کرتا ہے ۔ ’ سمالو چن ‘ ہندی فکر و ادب کا ایک نہایت ہی عمدہ انٹر نیٹ میگزین ہے ، جس کے ایڈیٹر ارون دیو ہیں ۔ اس کے دو حالیہ شمارے ’ بلڈوزر کو یتائیں ‘ کے نام سے مخصوص ہیں جسے ہندی کے معروف ادیب وجے کمار نے مرتب کیا ہے ۔ مزاحمتی ادب پر مبنی یہ دونوں جلدیں اتنی زبردست ہیں جنھیں اردو والوں کو ضرور پڑھنا چاہیے ۔ اگر چہ میں نے ان نظموں کے تراجم شائع کرنے کا جب ارادہ کیا تو اردو والوں سے بھی درخواست کی تھی کہ اس عنوان ( بلڈوزر ) کے تحت وہ بھی کچھ لکھیں لیکن ایسا لگتا ہے جیسے ہم ’ چیخنا ‘ بھول چکے ہوں اور ایک قسم کی بے حسی ہم پر مسلط ہوچکی ہے ۔ چنانچہ اردو والوں کی طرف سے مجھے صرف دو نظمیں موصول ہوئیں جنھیں شامل انتخاب کرلیا ۔‘‘ نظموں کا پیش نامہ عتیق اللہ نے لکھا ہے ، اور لاجواب ہے ، اس میں نظموں کا سارا کرب سمٹ آیا ہے ۔ دو سطریں دیکھیں ، ’’ مشین تو بے لوث اور بےجان بلکہ جامد چیز ہے ، اسے حرکت میں لانے کے لیے تکنیکی دماغ اور انسانی ہاتھ درکار ہیں ۔ مشین کو رحمدل یا بے رحم ، انسان سے زیادہ انسان اور آدم خور حیوانوں سے زیادہ خونخوار بنانے والا انسانی دماغ ہی ہوتا ہے ۔‘‘ میں چاہ کر بھی کوئی مکمل نظم یہاں پیش نہیں کر سکتا ، اخبار میں ہمیشہ جگہ کی تنگی ہوتی ہے ، بس وشنو ناگر کی ایک نظم کی ابتدائی تین سطریں پیش ہیں؎
بلڈوزر ایک نظریہ ہے/ جو ایک مشین کی شکل میں سامنے آتاہے/ اور آنکھوں سے اوجھل ہو جاتاہے
اس شمارے میں اشعر نجمی نے جاپانی ادیب ہاروکی موراکامی کی چار کہانیوں کا خوبصورت رواں ترجمہ کیا ہے ۔ نظموں کے ترجمے بھی انہوں نے ، اور ان کے نائب مدیر رضوان الدین فاروقی نے کیے ہیں ، بہترین ترجمے ۔ فکشن میں اس بار سید محمد اشرف کے ایک زیر تکمیل ناول ’’ سرخ ضیغم ‘‘ کا ایک باب اور دو افسانے شامل ہیں ۔ ناول کا باب اپنے آپ میں مکمل کہانی ہے ، اسے مٹتی ہوئی تہذیب کی کہانی کہا جاسکتا ہے ، دیکھیے اس کا کیا انجام ہوتا ہے ۔ افسانہ ’’ دروازے ‘‘ محبت کی ایک المیہ کہانی ہے ، اسے پڑھ کر میں بڑا بے چین رہا ۔ افسانہ ’’ غالب کے ساتھ ایک سہ پہر ‘‘ شمس الرحمٰن فاروقی کے افسانے ’’ غالب افسانہ ‘‘ کی یاد دلا دیتا ہے ۔ ابرار مجیب کا افسانہ ’’ پشپ گرام کا اتہاس ‘‘ پڑھ کر ان کے مزید افسانے پڑھنے کی چاہ پیدا ہوتی ہے ۔ نگار عظیم ایک بہترین فکشن نگار ہیں ، ان کی کہانی ’’ میڈی ٹیشن ‘‘ متاثر کرتی ہے ، نہ جانے وہ کیوں کم کم لکھتی ہیں ! اس شمارے میں ۱۳شعرا کی ۳۲غزلیں شامل ہیں ، اشعر نجمی نے ہمیشہ کی طرح اچھا انتخاب کیا ہے ۔ نظموں کے تین شعرا نینا عادل ، احمد نعیم اور پاکستان کے جواں مرگ شاعر زین عباس ( ان کی خودکشی کی خبر کافی تکلیف دہ تھی ) کی نظمیں ، مختصر تعارف کے ساتھ شامل ہیں ۔ خالد جاوید نے نینا عادل کا اور اشعر نجمی نے بعد کے دونوں شعرا کا تعارف خوب کرایا ہے ۔ میں احمد نعیم کی نظموں پر کچھ بات کروں گا ۔ اشعر نجمی ’’ سکوت پر دستک ‘‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں ،’’ احمد نعیم کی زیر نظر نظمیں ایک ایسے اَن گھڑ کمہار کے ہاتھوں کے شاہکار ہیں جن میں مٹّی اور کمہار دونوں آپس میں رُل گیے ہیں ، ‘‘ میرے لیے ، اَن گھڑ کمہار اور مٹّی کا آپس میں رُل جانا ، ان نظموں کو پسند کرنے کی سب سے بڑی وجہ بنا ۔ یہ نظمیں ایک ایسی روح کی بے چینی کو آشکار کرتی ہیں ، جو اپنے کرب اور اپنی تڑپ کو نہاں نہیں عیاں کرنے میں ، اور اس کے ذریعے سماج کو وہ تصویر دکھانے میں یقین رکھتا ہے ، جسے سماج دیکھنا نہیں چاہتا ۔ مبارک ہو احمد نعیم ! ایک نظم کے تین مصرعے ملاحظہ کریں؎؎
میرا خدا مجھے بچا رہاتھا / اور! / میں / مر / گیا / تھا ! ( ایک ناکام کوشش )
اس شمارہ میں’’جہانِ دیگر‘‘کے تحت چار معلوماتی مضمون ہیں ،سب کے سب پڑھنے جیسے۔یہ شمارہ موبائل ( 8169002417)پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔