جلیاں نوالہ باغ قتل عام پر خصوصی تحریر
جلیانوالہ باغ کا قتلِ عام، جسے امرتسر قتلِ عام بھی کہا جاتا ہے، 13 اپریل، 1919 کو واقع ہوا جب پرامن احتجاجی مظاہرے پر برطانوی ہندوستانی فوج نے جنرل ڈائر کے احکامات پر گولیاں برسا دیں۔ اس مظاہرے میں بیساکھی کے شرکا بھی شامل تھے جو پنجاب کے ضلع امرتسر میں جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے تھے۔ یہ افراد بیساکھی کے میلے میں شریک ہوئے تھے جو پنجابیوں کا ثقافتی اور مذہبی اہمیت کا تہوار ہے۔ بیساکھی کے شرکا بیرون شہر سے آئے تھے اور انہیں علم نہیں تھا کہ شہر میں مارشل لا نافذ ہے۔
پانچ بج کر پندرہ منٹ پر جنرل ڈائر نے پچاس فوجیوں اور دو آرمرڈ گاڑیوں کے ساتھ وہاں پہنچ کر کسی اشتعال کے بغیر مجمع پر فائرنگ کا حکم دیا۔ اس حکم پر عمل ہوا اور چند منٹوں میں سینکڑوں افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
باغ کا رقبہ 6 سے 7 ایکڑ جتنا تھا اور اس کے پانچ دروازے تھے۔ ڈائر کے حکم پر فوجیوں نے مجمعے پر دس منٹ گولیاں برسائیں اور زیادہ تر گولیوں کا رخ انہی دروازوں سے نکلنے والے لوگوں کی جانب تھا۔ برطانوی حکومت نے ہلاک شدگان کی تعداد 379 جب کہ زخمیوں کی تعداد 1200 بتائی۔ دیگر ذرائع نے ہلاک شدگان کی کل تعداد 1000 سے زیادہ بتائی۔ اس ظلم نے پوری قوم کو ہلا کر رکھ دیا اور برطانوی اقتدار سے ان کا بھروسا اٹھ گیا۔ ناقص ابتدائی تفتیش کے بعد ہاؤس آف لارڈز میں ڈائر کی توصیف نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور تحریکِ عدم تعاون شرو ع ہو گئی۔
اتوار 13اپریل، 1919 کو ڈائر کو بغاوت کا پتہ چلا تو اس نے ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی لگا دی مگر لوگوں نے اس پر زیادہ کان نہ دھرے۔ چوں کہ بیساکھی کا دن سکھ مذہب کے لیے مذہبی اہمیت رکھتا ہے، اس لیے آس پاس کے دیہاتوں کے لوگ باغ میں جمع ہو گئے تھے۔ جب ڈائر کو باغ میں ہونے والے اجتماع کا پتہ چلا تو اس نے فوراً پچاس گورکھے فوجی اپنے ساتھ لیے اور باغ کے کنارے ایک اونچی جگہ انہیں تعینات کر کے مجمعے پر گولی چلانے کا حکم دیا۔ دس منٹ تک گولیاں چلتی رہیں حتیٰ کہ گولیاں تقریباً ختم ہو گئیں۔ ڈائر نے بیان دیا کہ کل 1650 گولیاں چلائی گئیں۔ شاید یہ عدد فوجیوں کی طرف سے جمع کیے گئے گولیوں کے خولوں کی گنتی سے آیا ہوگا۔ برطانوی ہندوستانی اہلکاروں کے مطابق 379 کو مردہ اور تقریباً 1100 کو زخمی قرار دیا گیا۔ انڈین نیشنل کانگریس کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد اندازہً 1000 اور زخمیوں کی تعداد 1500 کے لگ بھگ تھی۔
جلیانوالہ باغ کی طرف جانے والا تنگ راستہ، جہاں سے قتل عام کیا گیا
شروع میں برطانیہ کے قدامت پسندوں نے ڈائر کی بہت تعریف کی مگر ایوانِ نمائندگان نے جولائی 1920تک اس کو منظرِ عام سے ہٹا کر ریٹائر کر دیا۔ برطانیہ میں برطانوی سلطنت کے حامیوں جیسا کہ ہاؤس آف لارڈز میں ڈائر کو ہیرو سمجھا جاتا تھا مگر جمہوری اداروں جیسا کہ ایوانِ نمائندگان میں اسے ناپسند کیا جاتا تھا اور اس کے خلاف دو بار ووٹ دیا۔ اس قتلِ عام کے بعد فوجی کردار کے بارے نئے سرے سے فیصلہ کیا گیا کہ اسے کم از کم طاقت تک محدود کر دینا چاہیے اور فوج نے مجمع کو قابو کرنے کے لیے نئی مشقیں اور نئے طریقوں کو اپنایا۔ بعض مؤرخین کے مطابق اس واقعے نے برطانوی اقتدار کی قسمت پر مہر ثبت کر دی جب کہ دیگر کا خیال ہے کہ پہلی جنگِ عظیم میں ہندوستان کی شمولیت کی وجہ سے خود مختاری نوشتہ دیوار بن چکی تھی۔
ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ
پہلی جنگ عظیم کے دوران برطانوی ہند نے برطانیہ کے لیے جنگ میں افرادی اور مالی حصہ ڈالا۔ 12 لاکھ 50 ہزار فوجی اور مزدوروں نےیورپ،افریقا اورمشرق وسطیٰ میں خدمات سر انجام دیں جب کہ ہندوستانی انتظامیہ اور راجاؤں نے خوراک، پیسے اور اسلحہ جات مہیا کیا۔ تاہم بنگال اور پنجاب میں برطانوی نوآبادیات کے خلاف تحاریک چلتی رہیں۔ بنگال اور پنجاب میں ہونے والے انقلابی حملوں نے مقامی انتظامیہ کو تقریباً مفلوج کر دیا تھا۔ ان میں برٹش انڈین آرمی کی فروری 1915ء کی بغاوت کا منصوبہ سب سے اہم تھا جو 1914ء سے 1917ء کے دوران میں بنائے گئے بغاوت کے منصوبہ جات میں سے ایک تھا۔ اس مجوزہ بغاوت کو برطانوی حکومت نے اپنے جاسوسوں کو باغیوں کی صفوں میں گھسانے کے بعد کلیدی اہمیت کے حامی باغیوں کو گرفتار کر کے بغاوت فرو کر دی۔ چھوٹے یونٹوں اور گیریژنوں میں پائے جانے والے باغیوں کو کچل دیا گیا۔ اس صورت حال میں برطانوی حکومت نے 1915ء کا ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ منظور کیا جس کے تحت سیاسی اور شہری آزادیاں محدود کر دی گئیں۔ مائیکل او ڈوائیر جو اس وقت پنجاب کا لیفٹنٹ گورنر تھا، اس ایکٹ کو منظور کرانے کے لیے بہت فعال رہا تھا۔
جنرل ڈائر
رولٹ ایکٹ
طویل ہوتی ہوئی جنگ کے اخراجات اور جانی نقصانات بہت زیادہ تھے۔ بلند شرح اموات اور بڑھتی ہوئی افراطِ زر کی شرح کی وجہ سے اور بھاری ٹیکسوں کے علاوہ 1918ء کی انفلوئنزا کی وبا اور جنگ کے دوران میں تجارت کی معطلی کی وجہ سے ہندوستان کے لوگوں کی مشکلات کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ جنگ سے قبل ہندوستانی قوم پرستوں کے جذبات کو انڈین نیشنل کانگریس کی معتدل اور انتہا پسند جماعتوں نے ابھار دیے تھے اور باہمی اختلافات پر قابو پر کر متحد ہو گئے تھے۔ 1916ء میں کانگریس نے لکھنؤ پیکٹ منظور کیا جوآل انڈیا مسلم لیگ سے ان کا عارضی اتحاد بنا۔ برطانوی سیاست اور وائٹ ہال انڈیا پالیسی بھی پہلی جنگِ عظیم کے بعد بدلنے لگی اور موٹاگو چیلمس فورڈ اصلاحات نے برِ صغیر میں 1917ء میں سیاسی اصلاحات کا عمل شروع کیا۔ تاہم ہندوستانی سیاسی جماعتوں نے اسے ناکافی گردانا۔ مہاتما گاندھی جو حال ہی میں ہندوستان آئے تھے، نے اپنی کرشمہ ساز شخصیت اور سیاسی اہمیت کو منوانا شروع کر دیا تھا۔ ان کی سربراہی میں عدم تعاون کی تحریک شروع ہو گئی اور بہت جلد ملک بھر میں سیاسی بے چینی شروع ہو گئی۔ کچھ عرصہ قبل کچلی گئی بغاوت، افغانستان میں کابل مشن میں مہندرا پرتاب کی موجودگی اور پنجاب اور بنگال میں جاری تحریکوں کی وجہ سے 1918ء میں سڈنی رولٹ نامی انگریز جج کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم ہوئی۔ اس کا کام ہندوستان میں جاری تحریکوں کے ممکنہ جرمن اور بالشویک روابط کا جائزہ لینا تھا۔ کمیٹی کی تجاویز پر رولٹ ایکٹ منظور ہوا جو 1915ء والے ڈیفنس آف انڈیا ایکٹ کی وسیع تر شکل تھی۔ اس سے ہندوستانی شہری آزادیاں مزید محدود ہو گئیں۔
1919ء میں رولٹ ایکٹ کی منظوری کے بعد پورے ہندوستان میں بڑے پیمانے پر بے چینی پھیل گئی۔ اتفاق سے 1919ء میں ہی تیسری افغان جنگ شروع ہوئی جو امیر حبیب اللہ کے قتل کا نتیجہ تھی۔ اس کے علاوہ گاندھی کی عدم تعاون کی تحریک پر ہندوستان بھر سے انتہائی زیادہ مثبت ردِ عمل ملا۔ خصوصاً پنجاب کی صورت حال تیزی سے بگڑ رہی تھی اور ریل، تار اور دیگر ذرائع مواصلات معطل ہو رہے تھے۔ اپریل کے پہلے ہفتے میں احتجاج اپنے عروج کو پہنچ چکا تھا اور بعض ذرائع کے مطابق پورا لاہور ہی سڑکوں پر نکل آیا تھا۔ انارکلی میں 20٬000 سے زیادہ افراد جمع ہوئے۔ امرتسر میں جلیاں والا باغ میں 5٬000 سے زیادہ افراد جمع ہوئے۔ اگلے کئی روز تک صورت حال مزید بگڑتی گئی۔ مائیکل او ڈوائیر کے مطابق 1857ء کی بغاوت کی مانند ایک اور بغاوت کھلے عام جنم لے رہی تھی۔ اندازہ تھا کہ مئی میں جب برطانوی فوجی گرمی کی وجہ سے پہاڑی علاقوں کو منتقل ہو جائیں گے تو بغاوت شروع ہوگی۔ امرتسر کا قتلِ عام اور اس سے پہلے اور بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وہ حکومت کی طرف سے بغاوت رفع کرنے کا منصوبہ تھا۔
قتلِ عام سے پہلے
بہت سارے انڈین فوجی افسروں کو یقین تھا کہ بغاوت کا امکان ہے۔ امرتسر میں 15٬000 افراد جلیاں والے باغ میں جمع ہوئے۔ پنجاب کے برطانوی لیفٹنٹ گورنر مائیکل او ڈوائیر کے بارے کہا جاتا ہے کہ اس کے خیال میں یہ بغاوت کی ابتدائی علامات تھیں جس کا آغاز مئی سے ہونا تھا۔ مئی کے مہینے میں گرمی کی شدت سے برطانوی فوجی پہاڑی علاقوں کو منتقل ہو جاتے تھے۔ بعض مؤرخین کے خیال میں امرتسر کے قتلِ عام سے قبل اور بعد میں بھی حکومتی احکامات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ پنجاب کی انتظامیہ کی طرف سے بغاوت کو دبانے کی کوشش تھی۔ جیمز ہاوزمین ڈو بولے کے مطابق پنجاب میں بغاوت کے ڈر اور وہاں کی کشیدہ صورت حال کے پیشِ نظراٹھائے گئے حکومت اقدامات کے نتیجے میں یہ قتلِ عام ہوا۔
جلیانوالہ باغ، قتل عام کے کچھ ماہ بعد
10اپریل، 1919ء کو امرتسر کے ڈپٹی کمشنر کی رہائش گاہ کے باہر احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ پنجاب شمال مغربی ہندوستان کا ایک بڑا صوبہ تھا۔ مظاہرے کا مقصد ہندوستان کی تحریکِ آزادی کے دو مقبول رہنماؤں ستیہ رام اور سیف الدین کچلو کی آزادی کا مطالبہ تھا۔ انہیں کچھ وقت قبل گرفتار کر کے کسی خفیہ مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔ دونوں رہنما ستیہ گرہ تحریک کے حامی تھے جو موہنداس کرم چند گاندھی نے شروع کی تھی۔ ایک فوجی مورچے سے مجمعے پر گولیاں چلائی گئیں جس سے بہت سارے مظاہرین ہلاک ہوئے اور پرتشدید واقعات پھوٹ پڑے۔ اسی دن بعد میں کئی بینک اور دیگر حکومتی عمارات بشمول ٹاؤن ہالاور ریلوے سٹیشن پر حملہ کر کے انہیں آگ لگا دی گئی۔ تشدد بڑھتاگیا اور پانچ یورپی بشمول حکومتی ملازمین اور شہری مارے گئے۔ فوج نے دن میں کئی بار مظاہرین پر گولیاں چلائیں اور 8 سے 20 کے درمیان مظاہرین ہلاک ہوئے۔
وہ مقام جہاں سے نہتے لوگوں پر گولیاں برسائی گئیں
11اپریل کو مس مارسیلا شیرووڈ جو ایک انگریز مشنری تھیں، اپنے طلبہ کی حفاظت کے بارے پریشان ہوئیں اور اپنے اسکول کو بند کرنے اور 600 سے زیادہ ہندوستانی طلبہ و طالبات کو گھر بھیجنے روانہ ہوئیں۔ تاہم کچہ کریچھن نامی تنگ سی سڑک پر سائیکل چلاتے ہوئے انہیں ہجوم نے پکڑ لیا اور بالوں سے کھینچ کر انہیں زمین پر گرانے کے بعد ان کے کپڑے زبردستی اتار کر ان پر تشدد کیا گیا اور پھر مردہ سمجھ کر وہیں چھوڑ دیا گیا۔ ان کے ایک طالب علم کے باپ اور دیگر مقامی افراد نے ان کی مدد کی اور انہیں اٹھایا اور ہجوم سے چھپا کر ایک محفوظ مقام پر لے گئے اور پھر انہیں بحفاظت مگر خفیہ طریقے پر گوبند گڑھ قلعے پہنچا دیا گیا۔19 اپریل کو شیرووڈ سے ملاقات کے بعد برطانوی راج کے مقامی کماندارکرنل ڈائر نے حکم جاری کیا کہ مندرجہ بالا سڑک سے گزرنے والے ہر ہندوستانی مرد کو یہ سڑک ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل چل کر عبور کرنی ہوگی۔ کرنل ڈائر نے بعد میں ایک برطانوی انسپکٹر کو یہ وضاحت دی: ‘کچھ ہندوستانی اپنے بھگوانوں کے سامنے جھکتے یا ماتھا ٹیکتے ہیں۔ میں انہیں دکھانا چاہتا ہوں کہ برطانوی خاتون ان کے بھگوان جتنی متبرک ہے اور اس کے سامنے انہیں ویسے ہی ڈنڈوت کرنا چاہیے۔‘ اس نے یہ بھی حکم جاری کیا کہ کسی برطانوی پولیس اہلکار سے ایک لاٹھی جتنے فاصلے پر آنے و الے ہر مقامی کو عوامی مقام پر کوڑے لگائے جائیں۔ مس مارسیلاشیرووڈ نے بعد میں جنرل ڈائرکا دفاع کرتے ہوئے اسے پنجاب کا نجات دہندہ قرار دیا۔
جلیانوالہ باغ کا کنواں
اگلے دو روز تک امرتسر کا شہر خاموش رہا مگر پنجاب کے دیگر علاقوں میں فسادات ہوتے رہے۔ ریلوے لائنیں کاٹ دی گئیں، تار کے کھمبے اکھاڑ ڈالے گئے، حکومتی عمارتوں کو نذرِ آتش کیا جاتا رہا اور تین یورپی قتل کیے گئے۔ 13 اپریل کو برطانوی حکومت نے پنجاب کے زیادہ تر حصے پر مارشل لا لگانے کا فیصلہ کیا۔ قانون کے تحت زیادہ تر شہری آزادیوں پر قدغن لگا دی گئی اور 4 سے زیادہ افراد کا ایک جگہ جمع ہونا بھی ممنوع قرار پایا۔
12اپریل کی شام کو امرتسر میں ہڑتل کے رہنماؤں نے ہندو کالج ڈھب کھٹیکاں میں اجلاس کیا۔ اجلاس میں ہنس راج جو ڈاکٹر کچلیو کے مشیر تھے، نے اگلے روز ساڑھے چار بجے شام کو جلیاں والا باغ میں عوامی مظاہرے کا اعلان کیا اور اس کے ا نتظام کی ذمہ داری ڈاکٹر محمد بشیر کو سونپی گئی اور اس کی صدارت کانگریس کے بزرگ رہنما لال کنہیا لال بھاٹیا کے ذمے لگائی گئی۔ رولٹ ایکٹ کے خلاف اور حالیہ برطانوی اقدامات اور ڈاکٹر ستیہ پال اور ڈاکٹر کچلیو کی آزادی کا مطالبہ بھی کیا گیا۔ اس کے بعد یہ اجلاس ختم ہو گیا۔
قتلِ عام
13اپریل کی صبح بیساکھی کا روایتی تہوار شروع ہوا اور کرنل ڈائر نے امرتسر کے فوجی کماندار کی حیثیت سے دیگر شہری اہلکاروں سے مل کر شہر کا گشت کیا اور شہر میں داخلے اور خارج ہونے کے لیے اجازت نامہ لینے کا حکم دیا اور یہ بھی کہ رات آٹھ بجے سے کرفیو شروع ہو جائے گا اور تمام عوامی اجتماعات اور چار یا چار سے زیادہ افراد کے جمع ہونے پر پابندی لگائی۔ یہ اعلان انگریزی، اردو، ہندی اور پنجابی میں پڑھ کر سنایا گیا مگر بعد کے واقعات سے پتہ چلا کہ بہت کم لوگوں نے اسے سنا یا انہیں علم ہوا۔ اس دوران مقامی خفیہ پولیس کو پتہ چلا کہ جلیاں والا باغ میں عوامی اجتماع ہوگا۔ 12:40 پر ڈائر کو اس کی اطلاع دی گئی اور ڈیڑھ بجے وہ اپنے مرکز واپس لوٹا تاکہ اجتماع سے نمٹنے کی تیاری کر سکے۔
دوپہر تک ہزاروں سکھ، مسلمان اور ہندو جلیاں والا باغ میں ہرمندر صاحب کے پاس جمع ہو چکے تھے۔ بہت سارے لوگ گولڈن ٹمپل میں عبادت کر کے آئے تھے اور باغ کے راستے اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ باغ چھ یا سات ایکڑ جتنے رقبے پر پھیلا ہوا اور کھلا علاقہ ہے۔ یہ رقبہ لگ بھگ دو سو گز لمبا اور دو سو گز چوڑا ہے اور اس کے گرد تقریباً ددس فٹ اونچی چار دیواری موجود ہے۔ گھروں کی بالکونیاں زمین سے تین یا چار منزل اونچی ہیں اور وہاں سے باغ کا نظارہ دکھائی دیتا ہے۔ باغ میں آنے کے کل پانچ تنگ راستے ہیں جن میں سے کئی کے دروازے مقفل تھے۔ برسات میں یہاں فصلیں بھی اگائی جاتی تھیں مگر سال کا زیادہ تر حصہ اس کا کام کھیل کے میدان اور محض عوامی اجتماعات تک ہی محدود رہتا تھا۔ باغ کے مرکز میں سمادھی (شمشان گھاٹ) بھی تھا اور بیس فٹ چوڑا ایک کنواں جس میں پانی موجود تھا، بھی واقع تھا۔
یاتریوں کے علاوہ امرتسر میں گزشتہ کئی دنوں سے کسانوں، تاجروں اور دکانداروں کا مجمع ہو رہا تھا جو بیساکھی کے سالانہ میلہ مویشیاں کی خاطر آئے ہوئے تھے۔ شہری پولیس نے 2 بجے میلہ بند کر ادیا جس کے نتیجے میں بہت سارے لوگوں نے جلیاں والا باغ کا رخ کیا۔ اندازہ ہے کہ اُس وقت باغ میں بیس سے پچیس ہزار افراد جمع تھے۔ ڈائر نے باغ میں موجود لوگوں کی تعداد کا جائزہ لینے کی خاطر ایک ہوائی جہاز بھیجا۔ اس وقت تک کرنل ڈائر اور شہری انتظامیہ کے سربراہ ڈپٹی کمشنر اِرونگ کو مجمعے کا علم ہو چکا تھا مگر انہوں نے اسے روکنے یا پولیس کے ذریعے پرامن طور پر ہٹانے کی کوشش نہیں کی۔ بعد ازاں اسی وجہ سے ڈائر اور اِرونگ پر بہت تنقید کی گئی۔
وہ مقام جہاں سے نہتے لوگوں پر گولیاں برسائی گئیں
اس اجتماع کے اکٹھا ہونے کا وقت ساڑھے چار بجے تھا اور اس کے ایک گھنٹے بعد کرنل ڈائر کل 90 گورکھا فوجی لے کر باغ پہنچا۔ ان میں سے 50 کے پاس تھری ناٹ تھری لی این فیلڈ کی بولٹ ایکشن رائفلیں تھیں۔ چالیس کے پاس لمبے گورکھا چاقو تھے۔ اس بارے علم نہیں کہ گورکھا فوجیوں کو برطانوی حکومت کے ساتھ ان کی غیر متزلزل وفاداری کی وجہ سے چنا گیا یا پھر اس لیے کہ اُس وقت غیر سکھ فوجی میسر نہ تھے۔ اس کے علاوہ مشین گن سے لیس دو بکتربند گاڑیاں بھی ساتھ آئی تھیں مگر ان گاڑیوں کو باہر ہی چھوڑ دیا گیا کہ باغ کے راستے بہت تنگ تھے اور گاڑیاں اندر نہیں جا سکتی تھیں۔ جلیاں والا باغ کے گرد ہر سمت رہائشی مکانات تھے۔ بڑا داخلی راستہ نسبتاً زیادہ چوڑا تھا اور اس پر فوجی پہرہ دے رہے تھے اور ان کی پشت پر بکتربند گاڑیاں موجود تھیں۔
ڈائر نے مجمع کو کوئی تنبیہ نہیں دی اور نہ ہی انہیں اجلاس ختم کرنے کا کہا اور اس نے اہم داخلی راستے بند کر دیے۔ بعد میں اس نے بتایا، ‘میرا مقصد مجمع ختم کرنا نہیں بلکہ ہندوستانیوں کو سزا دینا تھا‘۔ ڈائر نے فوجیوں کو حکم دیا کہ مجمع میں ان حصوں پر گولی چلائی جائے جہاں سب سے زیادہ افراد جمع ہوں۔ فائرنگ تب روکی گئی جب گولیاں تقریباً ختم ہو چکی تھیں اور اندازہً 1650 کارتوس چلے۔
جلیانوالہ باغ کا کنواں
فائرنگ سے بچنے کی کوشش میں تنگ گزرگاہوں پر بہت سارے لوگ بھگدڑ کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور دیگر کنویں میں چھلانگ لگا کر ہلاک ہوئے۔ آزادی کے بعد کنویں پر لگائی گئی تختی کے مطابق اس کنویں سے 120 لاشیں نکالی گئیں۔ زخمیوں کو بھی اٹھانے کی اجازت نہیں دی گئی کیونکہ کرفیو نافذ تھا۔ رات میں کئی زخمی بھی ہلاک ہوئے۔
فائرنگ سے ہلاکتوں کی تعداد واضح نہیں۔ برطانوی تفتیش کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کل اموات 379 ہوئیں مگر اس تفتیش کے طریقہ کار پر اعتراض ہوا۔ جولائی 1919ء میں قتلِ عام کے تین ماہ بعد ِحکام نے قتل ہونے والے افراد کا اتہ پتہ لگانے کی خاطر علاقے کے لوگوں کو بلوایا تاکہ وہ مقتولین کے بارے رضاکارانہ طور پر معلومات دے سکیں۔ تاہم اس بارے زیادہ لوگ سامنے نہیں آئے کہ اس طرح یہ ثابت ہو جاتا کہ وہ افراد بھی اس غیر قانونی مجمع میں شریک تھے۔ اس کے علاوہ بہت سارے مقتولین کے قریبی رشتہ اس شہر سے تعلق نہیں رکھتے تھے۔ جب کمیٹی کے اراکین سے بات کی گئی تو ایک سینئر اہلکار کے مطابق ہلاکتوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہو سکتی ہے۔
چوں کہ مجمعے کے حجم، چلائی گئی گولیوں کی تعداد اور اس کے دورانیے کے بارے سرکاری اندازے غلط ہو سکتے ہیں، انڈین نیشنل کانگریس نے اپنی طرف سے ایک اور تحقیقاتی کمیٹی بنائی جس کے نتائج سرکاری نتائج سے بہت مختلف نکلے۔ کانگریس کی کمیٹی نے زخمیوں کی تعداد 1٬500 سے زیادہ اور ہلاکتوں کی تعداد کا اندازہ 1٬000 لگایا۔ حکومت نے اس قتلِ عام کی خبر چھپانے کی کوشش کی مگر پورے ہندوستان میں یہ خبر پھیل گئی اور عوام مشتعل ہو گئے۔ برطانیہ میں اس قتلِ عام کی معلومات دسمبر 1919ء میں جا کر پہنچیں۔
اثرات
کرنل ڈائر نے افسرانِ بالا کو بتایا کہ اس کا سامنا ‘مسلح باغیوں‘ سے ہے اور اس میجر جنرل ولیم بینن نے جواب دیا ‘تمہارا فعل درست تھا اور لیفٹننٹ گورنر نے اس کی منظوری دے دی ہے‘۔ او ڈوائیر نے امرتسر پر مارشل لا لگانے کی سفارش کی اور وائسرائے لارڈ چیلمس فورڈ نے اس کی منظوری دی تھی۔
اس وقت کے سیکریٹری آف سٹیٹ فار وار ونسٹن چرچل اور سابقہ وزیرِ اعظم ایچ ایچ ایسکوتھ نے کھلے عام اس حملے کی مذمت کی۔ چرچل نے اسے ‘خوفناک‘ جبکہ ایسکوتھ نے ‘اپنی تاریخ کے بدترین واقعات میں سے ایک‘ کہا۔ 8 جولائی 1920 کو ایوانِ نمائندگان میں چرچل نے بتایا، ‘ہجوم نہتا تھا اور ان کے پاس شاید لاٹھیاں رہی ہوں۔ انہوں نے کسی پر حملہ نہیں کیا تھا۔۔۔ جب ان پر گولیاں چلائی گئیں تو لوگوں نے بھاگنے کی کوشش کی۔ ٹرافالگر سکوئیر سے بھی چھوٹی جگہ پر اتنا بڑا مجمع تھا اور گولیاں ہجوم کے وسط پر چلائی گئیں۔ انہو ں نے جب فرار کی کوشش کی تو ان کے پاس باہر نکلنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ لوگ اتنے قریب قریب تھے کہ شاید ایک گولی تین یا چار انسانوں کے پار ہوجاتی۔ لوگ دیوانوں کی مانند جان بچانے کو ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ پھر اطراف پر بھی گولیاں برسائی گئیں۔ یہ سارا واقعہ آٹھ یا دس منٹ بعد تب جا کر رکا جب گولیاں ختم ہونے والی تھیں۔‘ چرچل کی تقریر کے بعد ہونے و الی رائے شماری میں پارلیمان کے اراکین نے جنرل ڈائر کے خلاف 247 اور حق میں 37 ووٹ ڈالے۔
رابندر سنگھ ٹیگور کو 22 مئی 1919 کو اس قتلِ عام کی اطلاع ملی۔ انہوں نے کلکتہ میں احتجاجی مظاہرے کی کوشش کی اور آخرکار بطور احتجاج ‘سر‘ کا خطاب واپس کر دیا۔ 30 مئی 1919 کو وائسرائے لارڈ چیلمس فورڈ کو لکھے ہوئے خط میں ٹیگور نے لکھا: ‘میری خواہش ہے کہ میں تمام تر اعزازات کو چھوڑ کر اپنے ہم قومو ں کے ساتھ کھڑا ہوں جو اپنی نام نہاد ناقدری کی وجہ سے تکلیفیں سہتے اور انسان کہلانے سے محروم ہیں۔‘
گپتا کے مطابق ٹیگور کا یہ خط ‘تاریخی‘ اہمیت کا حامل ہے۔ اس نے لکھا: ‘ٹیگور نے اپنا ‘سر‘ کا خطاب واپس کر دیا اور برطانوی حکومت کی جانب سے پنجاب کے لوگوں کے خلاف روا رکھے جانے والے غیر انسانی سلوک پر اس طرح اپنے احتجاج کا اظہار کیا۔ ٹیگور نے وائسرائے کے نام لکھے خط میں واضح کیا کہ کس طرح مقامی پیمانے پر ہونے والی بے امنی کے خلاف برطانوی حکومت نے غیر انسانی رویہ اپناتے ہوئے جس طرح قتلِ عام روا رکھا، اس سے ہندوستانی عوام کی جان و مال کی ناقدری واضح ہے۔ ٹیگور نے یہ بھی لکھا کہ اپنے ہم قوم افراد کی بے بسی پر اظہارِ یکجہتی کی خاطر اس کا فرض بنتا ہے کہ وہ تمام برطانوی اعزازات واپس کر دے۔
کلوک کے مطابق سرکاری طور پر اگرچہ اس واقعے کی مذمت کی گئی مگر بہت سارے برطانویوں نے اسے ‘برطانوی قانون کے تحفظ کے لیے سرگرم ہیرو قرار دیا‘۔
ہنٹر کمیشن
14 اکتوبر، 1919ء کو سیکریٹری آف سٹیٹ فار انڈیا، ایڈون موٹاگو نے حکم جاری کیا کہ اس واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک کمیٹی بنائی جا رہی ہے۔ اس کمیشن کو بعد میں کمیشن کے سربراہ کے نام کی مناسبت سے ہنٹر کمیشن کہا گیا۔ لارڈ ولیم ہنٹر اسکاٹ لینڈ کے سابقہ سالیسٹر جنرل تھے اور سکاٹ لینڈ کے کالج آف جسٹس کے سینیٹر بھی۔ کمیشن کے اغراض و مقاصد یہ تھے: ‘بمبئی اور پنجاب میں ہونے والے بے امنی کے حالیہ واقعات کی تفتیش کرنا، ان کی وجوہات جاننا اور ان سے نمٹنے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا جائزہ لینا‘۔ کمیشن کے ارکان یہ تھے:
لارڈ ہنٹر، کمیشن کے چیئرمین
مسٹر جسٹس جارج سی رینکن آف کلکتہ
سر چمن لال ہری لال سیتوالڈ، بمبئی یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور بمبئی ہائی کورٹ کے ایڈوکیٹ
مسٹر ڈبلیو ایف رائس، محکمہ داخلہ کے رکن
میجر جنرل سر جارج بیرو، کے سی بی، کے سی ایم جی، جی او سی پشاور ڈویژن
پنڈت جگت نرائن، وکیل اور صوبجاتِ متحدہ کی قانون ساز کونسل کے رکن
مسٹر تھامس سمتھ، صوبجاتِ متحدہ کی قانون ساز کونسل کے رکن
سردار صاحبزادہ سلطان احمد خان، ریاست گوالیار کے وکیل
مسٹر ایچ سی سٹوکس، کمیشن کے سیکریٹری اور محکمہ داخلہ کے رکن
29 اکتوبر کو نئی دہلی میں ملاقات کے بعد کمیشن نے آئندہ ہفتوں میں عینی شاہدین کے بیانات قلمبند کیے۔ عینی شاہدین کو دہلی، احمد آباد، بمبئی اور لاہور میں بلوایا گیا۔ اگرچہ کمیشن کی تشکیل کی آئینی عدالت نے نہیں کی تھی اور گواہان کے لیے حلف لینا ضروری نہیں تھا ،ا س لیے کمیشن کے ارکان نے بار بار اور سوال در سوال کر کے تفصیلی معلومات لے لیں۔ عام تاثر یہ تھا کہ کمیشن نے اپنا کام بہت گہرائی سے کیا ہے۔ نومبر میں لاہور پہنچ کر کمیشن نے ابتدائی تحقیقات ختم کیں اور امرتسر والے واقعات کے بنیادی شاہدین پر توجہ مرکوز کی۔
19 نومبر کو کمیشن نے ڈائر کو بلوایا۔ اگرچہ ڈائر کو اس کے افسرانِ بالا نے لیگل کونسل کے ہمراہ پیش ہونے کا مشورہ دیا مگر اس نے اکیلے جانے کو ترجیح دی۔ ابتدا میں جب لارڈ ہنٹر نے سوال کیا تو ڈائر نے جواب دیا کہ اسے جلیاں والا باغ میں ہونے والے مجمع کا علم 12:40 پر ہوا اور اس نے روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔ اس نے بتایا کہ وہ باغ اسی ارادے سے گیا تھا تاکہ اگر وہاں مجمع ہو تو اس پر گولی چلائی جائے۔ پیٹرسن نے بتایا کہ اپنی عزتِ نفس کی بات کرتے ہوئے ڈائر نے بتایا، ‘میرا خیال ہے کہ مجمع کو آسانی سے منتشر کیا جا سکتا تھا مگر اس طرح وہ لوگ لوٹ آتے اور پھر میرا مضحکہ اڑاتے اور میں اپنے آپ کو احمق محسوس کرتا۔‘ ڈائر نے پھر بعد میں بھی یہ بات دہرائی کہ اس کا یقین تھا کہ باغ میں موجود مجمع باغیوں کا تھا جو اسے اس کی فوج اور سپلائی لائن سے علاحدہ کرنا چاہ رہے تھے۔ اس لیے اس نے اپنی ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے گولی چلائی۔
مسٹر جسٹس رینکن کے بعد سر چمن لال نے ڈائر سے پوچھا:
سر چمن لال: فرض کریں کہ باغ کے داخلی راستے اتنے چوڑے ہوتے کہ بکتربند گاڑی گزر سکتی، تو کیا آپ مشین گنوں سے گولیاں چلاتے؟
ڈائر: میرا خیال ہے کہ ہاں۔
سر چمن لال: اس طرح تو جانی نقصان کہیں زیادہ ہوتا؟
ڈائر: جی۔
ڈائر نے یہ بھی بتایا کہ اس طرح اس کی نیت تھی کہ پنجاب میں دہشت کی لہر دوڑ جائے اور باغیوں کے حوصلے پست ہو جائیں۔ اس نے بتایا کہ جب مجمع چھٹنے لگا تو اس نے فائرنگ نہیں روکی کہ اس کی ڈیوٹی تھی کہ کہ جب تک مجمع مکمل طور پر نہ چھٹ جائے، اسے فائرنگ جاری رکھنی چاہیے۔ ہلکی فائرنگ کا کوئی فائدہ نہ ہوتا۔ اس نے گولیاں ختم ہونے تک فائرنگ جاری رکھی۔ فائرنگ کے بعد زخمیوں کی جان بچانے کے بارے اس نے واضح کہا: ‘ان کی جان بچانا میرا فرض نہیں تھا۔ ہسپتال کھلے تھے، وہ ہسپتال چلے جاتے۔‘
کمیشن کے تابڑ توڑ سوالات سے تھکنے او ربیماری کی وجہ سے کمیشن نے ڈائر کو جانے کی اجازت دے دی۔ اگلے کئی ماہ تک کمیشن اپنی حتمی رپورٹ لکھتا رہا اور اس دوران میں برطانوی میڈیا اور بہت سارے اراکینِ پارلیمان نے ڈائر کی مخالف شروع کر دی کہ تب تک برطانیہ میں بھی ڈائر کے کرتوت مع تفصیل پہنچ چکے تھے۔ لارڈ چیملس فورڈ نے کمیشن کی رپورٹ موصول ہونے تک تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس دوران میں ڈائر یرقان اور شریانوں کی تنگی کے سبب ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ اگرچہ کمیشن کے اراکین اپنے اپنے نسلی تعلق کی وجہ سے منقسم تھے اور ہندوستانی اراکین نے اپنی رپورٹ الگ سے لکھی، حتمی رپورٹ میں شاہدین کے بیانات کی چھ جلدیں تھیں اور اسے 8 مارچ، 1920ء کو جاری کیا گیا اورمتفقہ طور پر ڈائر کے افعال کی مذمت کی گئی۔ یہ بات واضح لکھی گئی کہ ‘جتنی دیر جنرل ڈائر نے فائرنگ کی، یہ مہلک غلطی تھی‘۔ مخالف اراکین کا اصرار تھا کہ مارشل لا کے دوران میں حکومت کی جانب سے طاقت کا استعمال یکسر غلط تھا۔ رپورٹ میں لکھا گیا کہ ‘اگرچہ جنرل ڈائر نے سوچا کہ اس نے بغاوت کچل دی اور سر مائیکل او ڈوائیر بھی اس کے ہم خیال تھے، مگر نہ تو کوئی بغاوت ہوئی تھی اور نہ ہی اسے کچلنے کی ضرورت تھی‘۔ رپورٹ نے نتیجہ اخذ کیا:
ابتدا میں ہی مجمع کو منتشر ہونے کا حکم نہ دینا غلطی تھی
فائرنگ کا دورانیہ ایک اور مہلک غلطی تھی
فائرنگ کے لیے ڈائر کے خیالات قابلِ مذمت ہیں
ڈائر نے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا
پنجاب میں برطانوی اقتدار کے خلاف کوئی سازش نہیں ہو رہی تھی
کمیشن کے ہندوستانی اراکین نے مزید لکھا:
عوامی اجتماعات پر پابندی کا اعلان مناسب طریقے سے نہیں کیا گیا
مجمع میں بے گناہ شہری بھی تھے جنہوں نے باغ میں پہلے کبھی فساد نہیں کیا تھا
ڈائر کو چاہیے تھا کہ یا تو وہ فوجیوں کو زخمیوں کی مدد کا حکم دیتا یا پھر شہری حکام کو حکم بھیجتا
ڈائر کے افعال انتہائی غیر انسانی اور غیر برطانوی تھے اور ان سے ہندوستان میں برطانیہ کی حکومت کا تاثر بری طرح مجروح ہوا
ہنٹر کمیشن نے ڈائر کے خلاف کسی قسم کی محکمانہ کارروائی یا مجرمانہ مقدمے کی سفارش نہیں کی کیونکہ اس کے افسرانِ بالا نے ڈائر کی کارروائی سے چشم پوشی کی اور بعد ازاں آرمی کونسل نے بھی اس کی توثیق کی۔ وائسرائے کونسل کے لیگل اور ہوم ارکان نے نتیجہ نکالا کہ ڈائر کا یہ فعل بربریت پر مبنی اور بے رحمانہ تھا۔ مگر سیاسی وجوہات کی بنا پر اس کے خلاف قانونی یا فوجی چارہ جوئی نہیں کی جا سکتی۔ آخرکار اسے اپنے فرائض سے غفلت برتنے کا مرتکب قرار دے کر 23 مارچ کو اس کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ تیسری افغان جنگ کے دوران میں اس کی خدمات کی بنا پر اسے سی بی ای کے لیے تجویز کیا گیا تھا مگر 29 مارچ، 1920ء کو یہ تجویز واپس لے لی گئی۔
گجرانوالہ میں احتجاج
دوروز بعد 15 اپریل کوگوجرانوالہ میں امرتسر کے قتلِ عام کے خلاف احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ مظاہرین کے خلاف پولیس اور ہوائی جہاز استعمال کیے گئے جس کے نتیجے میں 12 ہلاکتیں اور 27 افراد زخمی ہوئے۔ ہندوستان میں برطانوی شاہی فوج کے سربراہ برگیڈیئر جنرل این ڈی کے میک ایون نے بعد میں بتایا:
میرا خیال ہے کہ ہم حالیہ مظاہروں کو ختم کرنے میں کافی مددگار ثابت ہوئے ہیں، بالخصوص گجرانوالہ میں اگر ایک جہاز کی مدد سے بم اور لیوس گن نہ چلاتے تو احتجاج بہت بری شکل اختیار کر رہا تھا۔
مائیکل او ڈوائیر کا قتل
13 مارچ، 1940ء کو لندن کے کیکسٹن ہال میں ادھم سنگھ نے مائیکل او ڈوائیر کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ اودھم سنگھ امرتسر والے واقعے کا عینی شاہد تھا اور اس روز گولی لگنے سے زخمی بھی ہوا تھا۔ مائیکل او ڈوائیر اس وقت پنجاب کا برطانوی لیفٹننٹ گورنر تھا اور اس نے نہ صرف ڈائر کی حمایت کی بلکہ یہ بھی مانا جاتا ہے کہ اصل منصوبہ اسی کا بنایا ہوا تھا۔ ڈائر 1927ء میں فوت ہوا۔
قوم پسند اخبارات جیسا کہ امریتہ بازار پتریکا نے اس بارے مثبت خبریں چھاپیں۔ عوام الناس اور انقلاب پسندوں نے ادھم سنگھ کے فعل کی تعریف کی۔ زیادہ تر دنیا کے اخبارات نے جلیاں والا باغ کی کہانی پھر سے چھاپی اور مائیکل او ڈوائیر کو اس قتلِ عام کا ذمہ دار قرار دیا۔ ادھم سنگھ حریت پسند قرار دیا گیا اور ٹائمز اخبار نے اس واقعے کو دبے ہوئے ہندوستانی عوام کے غم و غصے کا اظہار قرار دیا۔ فاشسٹ ممالک میں اس واقعے کو برطانیہ کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے استعمال کیا گیا۔
کانپور میں ایک عوامی اجتماع میں ایک مقرر نے اس واقعے کو ‘پوری قوم کی بے عزتی اور بے حرمتی کا بدلہ‘ قرار دیا۔ پورے ملک میں اس طرح کے جذبات عام تھے۔ بہار کی سیاسی صورت حال کے بارے لکھی گئی رپورٹوں میں درج ہوا: ‘سچ ہے کہ ہمیں سر مائیکل کے جانے سے کوئی تکلیف نہیں ہوئی کیونکہ اس نے ہماری قوم کے لیے ذلتیں جمع کی تھیں۔‘
اودھم سنگھ نے مقدمے کی سماعت کے دوران میں بتایا:
میں نے یہ کام اس لیے کیا کہ مجھے اس سے نفرت تھی۔ وہ اسی کا مستحق تھا۔ اصل بدمعاشی اسی کی تھی۔ اس نے میری قوم کی روح کچلنے کی کوشش کی تھی سو میں نے اسے کچل دیا۔ پورے 21 سال تک میں بدلے کی تیاری کرتا رہا۔ میں خوش ہوں کہ آخرکار کام ہو گیا۔ مجھے موت سے کوئی خوف نہیں۔ میں اپنے ملک کے لیے جان دے رہا ہوں۔ میں نے برطانوی راج کے تحت ہندوستان میں لوگوں کو بھوک سے سسکتے دیکھا ہے۔ یہ میرا فرض تھا کہ اس کے خلاف احتجاج کروں۔ مادرِ وطن کے لیے جان قربان کرنے سے بہتر کیا ہو سکتا ہے؟
31 جولائی، 1940ء کو ادھم سنگھ کو پھانسی دی گئی۔ 1952ء میں انڈیا کے وزیرِ اعظم نہرو نے اودھم سنگھ کو ‘‘شہیدِ اعظم‘ قرار دیا جس نے آزادی کی خاطر جان دی۔
پچھتاوا
اگرچہ ملکہ الزبتھ دوم نے اپنے 1961ء اور 1983ء کے دوروں میں اس قتلِ عام پر کوئی تبصرہ نہیں کیا مگر 13 اکتوبر، 1997ء کے سرکاری عشائیے میں انہوں نے یہ کہا:
بے شک ہمارے ماضی میں کئی مشکل دور آئے ہیں جن میں جلیاں والا باغ انتہائی تکلیف دہ مثال شامل ہے۔ میں وہاں کل جاؤں گی۔ مگر تاریخ کو بدلا نہیں جا سکتا، چاہے ہم کتنی کوشش کر لیں۔ اس کے اپنے دکھ اور خوشی کے لمحات ہیں۔ ہمیں رنج سے سیکھ کر اپنے لیے خوشیاں جمع کرنی چاہیئں۔
14 اکتوبر، 1997ء کو ملکہ الزبتھ دوم نے جلیاں والا باغ کا دورہ کیا اور نصف منٹ کی خاموشی اختیار کر کے اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ اس وقت ملکہ نے زعفرانی رنگ کا لباس زیبِ تن کیا تھا جو سکھ مذہب کے لیے مذہبی اہمیت کا حامل رنگ ہے۔ یادگار پر پہنچ کر انہوں نے اپنے جوتے اتارے اور پھول چڑھائے۔
اگرچہ انڈین لوگوں نے پچھتاوے کے اظہار اور ملکہ کے رنج کو قبول تو کیا مگر بعض نقاد کہتے ہیں کہ یہ معافی نہیں تھی۔ تاہم اس وقت کے انڈین وزیرِ اعظم اندر کمار گجرال نے ملکہ کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ جب یہ واقعہ ہوا تو ملکہ پیدا بھی نہیں ہوئی تھیں۔
8 جولائی، 1920ء کو ونسٹن چرچل نے ایوانِ نمائندگان کو کرنل ڈائر کو سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ چرچل نے ہاؤس کو کرنل ڈائر کو زبردستی ریٹائر کرنے پر آمادہ کر لیا مگر چرچل چاہتے تھے کہ کرنل کو سزا بھی ملتی۔
فروری 2013ء کو ڈیوڈ کیمرون پہلے برطانوی وزیرِ اعظم تھے جنہوں نے اس جگہ کا دورہ کیا اور پھول چڑھائے اور امرتسر قتلِ عام کو ‘برطانوی تاریخ کا انتہائی شرمناک واقعہ قرار دیا‘۔ تاہم کیمرون نے سرکاری طور پر معافی نہیں مانگی۔
فنکارانہ تشبیہات
1977ء: ہندی زبان کی فلم ‘جلیاں والا باغ‘ کے نام سے پیش کی گئی۔ فلم کو بلراج تاج نے لکھا اور پیش کیا۔ اس فلم میں اودھم سنگھ کی زندگی کے بارے واقعات دکھائے گئے۔ اس فلم کا کچھ حصہ برطانیہ میں عکس بند کیا گیا۔
1981ء: سلمان رشدی کے ناول ‘مڈ نائٹ چلڈرن‘ میں اس قتلِ عام کے بارے وہاں موجود ایک ڈاکٹر کے نکتہ نظر سے پیش کیا گیا جو عین وقت پر آنے والی چھینک سے گولی سے بچ گیا تھا۔
1982ء: رچرڈ اٹینبرو کی فلم گاندھی میں اس واقعے کے بارے بیان کیا گیا اور جنرل ڈائر کا کردار ایڈورڈ فاکس نے ادا کیا۔ اس فلم میں قتلِ عام کے واقعات اور بعد میں ہونے والی تحقیقات دکھائی گئیں۔
1984ء: اس قتلِ عام کی داستان گریناڈا ٹی وی کی 1984ء والی سیریز ‘دی جیول ان دی کراؤن‘ کی 7ویں قسط میں ایک برطانوی افسر کی فرضی بیوہ کی جانب سے بتائی گئی۔
2002ء: ہندی فلم ‘دی لیجنڈ آف بھگت سنگھ‘ کی ہدایتکاری راجمکار سنتوشی نے کی۔ اس فلم میں بھگت سنگھ کو بچپن میں اس قتلِ عام کو دیکھتے ہوئے ظاہر کیا گیا تھا جو بعد میں اس کے حریت پسند بننے میں کام آئی۔
2006ء: ہندی فلم ‘رنگ دے بسنتی‘ کے کچھ حصوں میں بھی اس قتلِ عام کو دکھایا گیا۔
2009ء: بالی رائے کے ناول ‘سٹی آف گھوسٹس‘ کا کچھ حصہ اس قتلِ عام کے حوالے سے ہے۔
2014ء: میں برطانوی ڈراما ‘ڈاؤن ٹاؤن ایبے‘ کے پانچویں سیزن کی آٹھویں قسط میں اس قتلِ عام کا کچھ حوالہ ملتا ہے۔
(ماخوذ : ویکی پیڈیا آزاد دائرۃ المعارف)