Urdu News

مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے نئی دہلی کی جامعہ ہمدرد میں کلیدی خطبہ پیش کیا

مرکزی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ

 سائنس اور ٹیکنالوجی اور ارضیاتی علوم کے مرکزی وزیر مملکت (آزادانہ چارج) اور عملہ، عوامی شکایات، پنشن، ایٹمی توانائی اور خلائی امور کے مملکتی وزیر ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ عالمی وبا نے ہمیں صحت کی مجموعی  دیکھ بھال کی اہمیت سے باخبر کیا اور عالمی وبا کے گزر جانے کے بعد بھی یہ بات بنی نوع انسان اور بیمار انسانیت کے مفاد میں ہوگی کہ مختلف بیماریوں کی روک تھام  اور مناسب علاج  کے لئے مربوط ادویاتی اپروچ کو ادارہ جاتی شکل دی جائے۔

https://static.pib.gov.in/WriteReadData/userfiles/image/image0013181.jpg

یہاں دنیا کی جدید ترین ٹرانسمیشن الیکٹران مائیکروسکوپی سہولت کا افتتاح کرنے کے بعد جس کیلئے سائنس اور ٹکنالوجی کی مرکزی وزارت نے مالی اعانت فراہم کی تھی جامعہ ہمدرد یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے وزیر موصوف نے کہا کہ کووڈ کے دوران  مغرب نے بھی قوت مدافعت پیدا کرنے کی اُن تکنیکوں کی تلاش میں ہندوستان کی طرف دیکھنا شروع کیا تھا جو آیوروید، ہومیو پیتھی،یونانی،یوگا، نیچروپیتھی اور دیگر مشرقی متبادلات سے اخذ کردہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہر حال کووڈ کے مرحلے کے گزر جانے کے بعد بھی مختلف بیماریوں اور امراض کے کامیاب انتظام کیلئے طبی انتظام کے مختلف سلسلوں کا ایک بہترین انضمام اور ہم آہنگی درکار ہے جو کہ دوسری صورت میں دواؤں کے کسی ایک سلسلے یا الگ الگ طریقوں سے علاج کے ذریعہ مکمل طور پر قابل عمل نہیں ہو سکتا۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ جب سے نریندر مودی نے 2014 میں ہندوستان کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالا ہے وہ طبی انتظام کے مقامی نظام کی اہمیت کو مرکزی سطح پر لے آئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ وزیر اعظم مودی ہی تھے جن کی کوشش سے یوگا کا عالمی دن منانے کے لئے اقوام متحدہ میں متفقہ قرارداد لائی گئی تھی۔ جس کے نتیجے میں یوگا دنیا بھر میں تقریباً ہر گھر تک پہنچ چکا ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی  نے ہی دیسی میڈیکل مینجمنٹ سسٹم کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے آیوش کی ایک الگ وزارت بنائی۔ اس کے علاوہ، یہ مودی سرکار ہی تھی جس نے سری نگر  میں یونانی میڈیسن میں ایم ڈی شروع کیا۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے ہمدرد یونیورسٹی میں دنیا کی جدید ترین ٹرانسمیشن الیکٹران مائیکروسکوپی سہولت کا افتتاح کیا جس کیلئے فنڈ مرکزی وزارت سائنس اور ٹکنالوجی نے فراہم کیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈی ایس ٹی جامعہ ہمدرد کو ریسرچ گرانٹس اور فیکلٹی اور ریسرچ اسکالرز کو فیلو شپس کی شکل میں اعانت کر رہا ہے۔ جامعہ ہمدرد ڈی ایس ٹی- پروموشن یونیورسٹی ریسرچ اینڈ سائنٹیفک اینڈ ایکسی لینس، ڈی ایس ٹی- ونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں میںایس اینڈ ٹی انفراسٹرکچر کی بہتری کے لئے فنڈ اور ڈی – ایس ٹی سی ایس آر آئی کے علاوہ  دیگر سہولتیں حاصل ہیں۔

اس سال کے موضوع‘‘پائیدار مستقبل کے لئے سائنس اور ٹیکنالوجی میں مربوط نقطہ نظر’’  کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر موصوف نے صحت کی دیکھ بھال کے شعبے میں بہترین نتائج حاصل کرنے کے لئے صحت کی دیکھ  ریکھکے تمام طریقوں اور حکمتوں کو سادہ اور آسان بنانے پر زور دیا۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ نیا ہندستان صرف مختلف علوم اور طب کے شعبوں کو مربوط کرنے سے صحت کی دیکھ بھال میں آتم نربھر بنے گا۔ انہوں نے کہا کہ تمام ادویات کے نظام کو ایک ہی چھت کے نیچے مربوط کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے تاکہ ایک ہی کارڈ والا مریض اپنی بیماری سے متعلق تمام طبی مشیروں سے مشورہ کر سکے۔ انہوں نے بشمول ڈیجیٹل ہیلتھ مشن ان مختلف کوششوں کا بھی خاکہ پیش کیا جو حکومت کی طرف سے کی جا رہی ہے ۔

ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ یونانی طبی نظام کے حکیموں اور آیوروید نظام کے ویدوں نے بے شمار بیماریوں، خاص طور پر دائمی بیماریوں کا سستا اور موثر علاج فراہم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ ادویات کے دونوں نظام اب بھی بے شمار مریضوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہے ہیں اور حکومت ہند نے ان نظاموں کو آیوش کے تحت مضبوط کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکیم صاحب کی قائم کردہ ہمدرد لیبارٹریز اچھی مینوفیکچرنگ پریکٹسز کے بعد تیار کی جانے والیبڑی تعداد میںیونانی فارمولیشنز تیار کرتی ہیں اور کچھ  ہمدرد مصنوعات جن کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہندوستان میں تقریباً ہر گھر میں  اورعالمی سطح پر استعمال ہوتے ہیں۔


ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے کہا کہ 1989 میں اپنے قیام کے بعد سے جامعہ ہمدرد کی ترقی شاندار رہی ہے اور نیشنل انسٹی ٹیوشنل فریم ورک (این آئی آر ایف) رینکنگ کے مطابق اس کے فارمیسی اسکول کو گزشتہ تین درجہ بندیوں میں لگاتار ملک کے سب سے بڑے ادارے کا درجہ دیا گیا ہے۔

وزیر موصوف نے ادارے کی قیادت، فیکلٹی اور طلباء کو ان کی کاوشوں پر مبارکباد دی جنہوں نے  ادارے کو بلندیوں تک پہنچایا ہے۔ جامعہ ہمدرد کی جانب سے کئی "تحقیقاتی فروغ  کی اسکیموں" کا حوالہ دیتے ہوئے ڈاکٹر جتیندر سنگھ نے فیکلٹی ممبران پر زور دیا کہ وہ اعلیٰ معیار کی تحقیق شائع کریں جس سے نہ صرف جامعہ ہمدرد بلکہ ہمارے ملک کا نام اور شہرت ہو۔

جامعہ ہمدرد (ڈیمڈیونیورسٹی) فارماسیوٹیکل، لائف سائنسز، میڈیکل، نرسنگ، یرامیڈیکل، انجینئرنگ، مینجمنٹ اور الائیڈ ہیلتھ ایجوکیشن کے شعبوں میں  باوقار درس گاہوں میں سے ایک ہے۔ اسے یو جی سی ایکٹ مجریہ 1956 کے سیکشن 3 کے تحت حکومت ہند کی انسانی وسائل کے فروغ کی وزارت  نے 1989 میں 'ڈیمڈیونیورسٹی' کا درجہ دیا تھا۔

ایک ہزار سے بھی کم طلباء کے ساتھ سفر شروع کرنے والے جامعہ ہمدرد میں اس وقت تقریباً 10,000 طلباء  ہیں جن میں تقریباً 600 پی ایچ ڈی شامل ہیں۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہو رہی ہے کہ اسے نیشنل اسیسمنٹ اینڈایکریڈیٹیشن کونسل  نے لگاتار تین مرتبہ اے گریڈ  کا ادارہ  تسلیم کیا ہے۔ حکومت ہند کی بااختیار کمیٹی نے بھی اس  کیلئے 'انسٹی ٹیوشن آف ایمیننس' کی حیثیت کی سفارش کی ہے۔

یونیورسٹی کے بانی حکیم عبدالحمید صاحب 20ویں صدی کے ہندوستانی طبی نظام  (یونانی) کے مشہور معالج تھے۔ اور اپنی پاس 75 سال سے زیادہ کییونانی پریکٹس کے دوران انہوں نے 30 لاکھ سے زیادہ کی ریکارڈ تعداد میں ان لوگوں کا جو یونانی ادویات کی مشق پر یقین اور اعتماد رکھتے تھے علاج کیا۔ تعلیم اور صحت کی دیکھ بھال کے میدان میں ان کی زبردست خدمات کے لئے، انہیں بھارت سرکار نے انہیں ملک کے اہم شہری اعزازات، جیسے پدم شری اور پدم بھوشن سے سرفراز کیا۔ اس کے علاوہ بھی وہ کئی دیگر قومی اور بین اقوامی ایوارڈوں اور اعزازات سے نوازے گئے۔

Recommended